کالم

جیسی اپوزیشن ویسا اپوزیشن لیڈر

مارچ 28, 2021 5 min

جیسی اپوزیشن ویسا اپوزیشن لیڈر

Reading Time: 5 minutes

پاکستان میں وزارت عظمیٰ کے دو امیدوار سینیٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے تنازعے پر ایک دوسرے پر طعنہ زنی کر رہے ہیں، ایک شخصیت کی والدہ محترمہ دو مرتبہ وزیراعظم بنیں اور دوسری شخصیت کے والد محترم تین مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ اتنے تابناک ماضی اور شاندار مستقبل والی دونوں شخصیات کا حال ایسا ہے کہ لگتا ہے اگلی بار ضلعی ناظم کے الیکشن پر بھی جھگڑا ہو گا۔

افسوس ہوتا ہے یہ سب دیکھ کر، اصولوں کی خاطر پھانسی کے پھندے پر جھول جانے والے ذولفقار علی بھٹو اور فوجی آمر کو للکارنے والے نواز شریف کے سیاسی وارث اور ان کی جماعتیں پارلیمنٹ کے ایک معمولی عہدے کی خاطر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ ایوان بالا میں لیڈر آف اپوزیشن جیسے ایک ذیلی عہدے کی خاطر ایک سابق وزیراعظم کا خود کو سامنے لانا، اور وہ بھی اس اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے امیدوار کے مدمقابل جس نے اس سابق وزیراعظم کو عزت دیتے ہوئے سینیٹر بنایا۔

یہ سب کچھ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کو عزت راس نہ آئے۔ اس سیاسی ٹکے ماری کی توقع ذولفقار علی بھٹو کی اس جماعت سے ہر گز نہیں تھی جس نے اس ملک کو ورثے میں آئین اور نظریات کی سیاست دی ۔ جناب بلاول بھٹو کی کوئی بھی دلیل عام عوام اور تجزیہ کاروں کو ایسے فیصلے کے حق میں راغب نہیں کر سکتی۔ اب بھی وقت ہے کہ بلاول بھٹو یوسف رضا گیلانی کو عہدے سے دستبردار کروا کر استعفوں والے معاملے میں اپنی جماعت کے موقف پر ہمدردی حاصل کرنے کی ایک کوشش کریں۔ دوسری صورت میں اگر مقصد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کےاستعفے نہ دینے کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی پی ڈی ایم کو اتنا غصہ دلا دیا جائے کہ جس کے بعد پیپلز پارٹی کو استعفے نہ دینے اور پی ڈی ایم سے الگ ہونے کا سیاسی جواز مل جائے تو الگ بات ہے۔ اور پھر پیپلز پارٹی جو بھی کرے گی اس کا الزام بھی پی ڈی ایم کو دیا جا سکے گا۔

احتساب کا سانپ بھی عارضی طور پر بل میں گھس جائے گا اور شاید سندھ میں اقتدار کی مشکلات بھی کم ہو جائیں گی۔ علیم عادل شیخ کی ضمانت پر رہائی کے خلاف سندھ حکومت اپیل میں کتنی چستی دکھائے گی؟ اسی طرح اب اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سپریم کورٹ سابق صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات کراچی منتقل کرتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اب نیب استغاثہ کتنا پرجوش ہو گا ان کیسوں میں؟

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے استعفے دینے کا پیپلز پارٹی پر جو عوامی دباؤ تھا بھی تو وہ لیڈر آف اپوزیشن کے تنازعے میں گم ہو گیا ہے۔ آکسفورڈ سے پڑھےجناب بلاول بھٹو کو ن لیگ کے امیدوار برائے اپوزیشن لیڈر ایڈوکیٹ اعظم تارڑ پر اشارتاً بھی یہ اعتراض کرنا مناسب نہیں تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے وکیل رہے ہیں۔ اب اگر وکیل جرائم پیشہ افراد کی وکالت سے انکار کر دیں تو لندن سے پڑھے بیرسٹر حضرات اسے کیا کہیں گے؟ ویسے بھی اگر بے نظیر بھٹو کے ملزمان تارڑ صاحب کی وکالت سے چھوٹ گئے تو اس کا کریڈٹ تو جناب آصف زرداری کی پانچ سالہ حکومت کو نہیں دینا چاہیے جو اقوام متحدہ کی تحقیقات کے باوجود اصل قاتلوں تک نہیں پہنچ سکی؟ نجانے پیپلز پارٹی کے قانون دان وکلا حضرات اپنے وکیل بھائی پر ایسے اعتراض کو کیسے دیکھتے ہیں۔

اب اتنا کچھ ہونے کے بعد جب بلاول بھٹو عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن کے اتحاد کی ضرورت پر مسکراتے ہوئے زور دیتے ہیں تو لگتا ہے پی ڈی ایم پر طنز کر رہے ہیں اور جیسے کہہ رہے ہوں ”اک زرداری سب پر بھاری۔“

ایسے میں پی ڈی ایم کی اپوزیشن جماعتیں بجا طور پر خود کو وہ ریوڑسمجھتی ہیں جس کا سودا کر دیا گیا ہو۔ ایک وزیراعظم کے نواسے اور وزیراعظم کے بیٹے بلاول کو نجانے کیا پڑی کہ پارلیمنٹ میں ایک سرکاری چیمبر کے حصول کی خاطر یہ سب کچھ کرے۔ عوام اور اپوزیشن کی تمام دوسری جماعتوں کے سامنے طویل پریس کانفرنس میں کوئی ٹھوس بہانہ نہ بن سکا کہ پی ڈی ایم کی حمایت کے باوجود اپنا سینیٹر منتخب کروانے میں ناکامی کے بعد پی ڈی ایم ہی کے خلاف اپنا امیدوار کیوں کھڑا کیا گیا۔

اب بات کرتے ہیں دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی نے بظاہر وعدہ خلافی کی مگر کیا ن لیگ جیسی بڑی جماعت کو اس پر حکمت اور تحمل سے کام نہیں لینا چاہیے تھا؟ مریم نواز کو نیب نوٹس لانگ مارچ کی متروکہ تاریک ۲۶ مارچ کو دیا گیا اور ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی طرف سے وعدہ خلافی کی اطلاع بھی آ چکی تھی تو ان واقعات نے انہیں ”نئی صف بندی“ کے امکان کے شک میں ڈال دیا۔

اپنی پریس کانفرنس میں باپ کے بطور پارٹی اور ہماری سیاست کے باپ پر طنز کے وہ تیر چلا دیے کہ جو ترکش میں ہی رہتے تو بہتر تھا۔ ایسا کر کے وہ پیپلز پارٹی کو بحث کا رخ استعفوں سے ہٹانے کا موقع بھی نہ دیتیں۔ کیا یہ کہہ دینا کافی نہیں تھا کہ اختلاف موجود ہے مگر اس کا حل وہی فورم کرے گا جہاں پر اپوزیشن لیڈر کے بارے میں حتمی فیصلہ ہوا تھا۔ بحث کا محور پیپلز پارٹی کے استعفے رہتا مگر اب استعفوں تک شاید نوبت بھی نہ آئے اور ن لیگ کی طرف سے سخت ردعمل پیپلز پارٹی کو استعفے نہ دینے کا مزید سیاسی جواز بھی فراہم کرے گا۔ اس کا جواب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وعدہ خلافی تو ہوئی، ہمیں اعتراض بھی ہے اور معاملہ ہی ڈی ایم میں اٹھائیں گے مگر ہم پیپلز پارٹی کے استعفوں سے متعلق فیصلے کے منتظر ہیں کیونکہ وہ بڑا معاملہ ہے جو معاشی طور پر پسے ہوئے عوام کا معاملہ ہے، ایسا معاملہ جو لیڈر آف اپوزیشن پر کسی کی وعدہ خلافی سے بھی بڑا ہے۔ بہرحال اب یہ سیلیکٹڈ سلیکٹڈ کی گردان بند ہونی چاہیے، بڑے مقاصد کے حصول کی خاطر چھوٹے تنازعات کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے۔

اس سارے معاملے میں تیسری قوت یہ تاثر دے رہی ہے کہ یہ سیاستدان سنجیدہ نہیں، یہ لوگ اپنی زبان اور معاہدوں پر قائم نہیں رہتے اور چھوٹے چھوٹے عہدوں کے لیے میثاق جمہوریت جیسی دستاویز کو بھی دھول میں اڑا دیتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں اور سیاست دان اپنی ترجیحات بدلتے رہتے ہیں اور اس حوالے سے کچھ فیصلے ان کے اپنے کارکنوں اور عوام پر بھی چھوڑ دینے چاہئیں۔ مریم نواز اگر لیڈر آف اپوزیشن کی تنازعے پر شدید رد عمل دینے کی بجائے اپنی توجہ پیپلز پارٹی کے استعفوں پر رکھتی تو تاریخ میں لکھا جاتا کہ پیپلز پارٹی کے استعفے نہ دینے کے باعث عوام کے معاشی قاتل عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کی تحریک ناکام ہو ئی، مگر اب مؤرخ بجا طور پر لکھے گا کہ حکومت بنانے اور گرانے والی دو بڑی سیاسی جماعتیں اور وزارت عظمی کے امیدوار دو بڑے لیڈر ایک ایوان کے اپوزیشن لیڈر کے انتخاب پر اختلاف کے باعث تحریک نہ چلا سکے۔

جہاں عوام نے تین سال گذار دئیے وہاں بقایا دو سال بھی گذر ہی جائیں گے مگر بلاول بھٹو اور مریم نواز کو اپنی اور اپنی اپنی جماعتوں کی ساکھ بنانے کے لئیے مزید چالا کیوں اور جذباتی بیان بازی سے گریز کرنا ہوگا۔ وگرنا پھر دونوں شخصیات اور جماعتیں کل کسی کونسلر کی سیٹ پر جھگڑا کرتے پائی جائیں گی۔

آج کے دور کی سیاست اور سیاسی رواداری کے گرتے معیار کا الزام کس کو دیں؟ جیسے عوام ویسے حاکم اور اسی طرح جیسے سینیٹر ویسے ہی ان کے لیڈر آف ہاؤس اور جیسے اپوزیشن کے سینیٹرز ویسے ہی ان کے لیڈر آف اپوزیشن۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن تو بن گئے، اب وہ ایک عوامی لیڈر بننے کی کوشش ضرور کریں وہ لیڈر جس کے اپنی جماعت سے بڑھ اپنے بھی کچھ اصول ہوتے ہوں۔

اچھے سیاستدان اچھی روایات بناتے ہیں اور مفاد پرست سیاستدان اپنے پیچھےایسی بری روایات چھوڑ جاتے ہیں جو ساری عمرکوٹ لیے ان کے گلے کا ہار بن جاتی ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے