سسٹم کام نہیں کرتا
Reading Time: 5 minutesچینی وزیر خارجہ کا ایک فون کال پر پوزیشن تبدیل کا طعنہ محض طعنہ نہیں بلکہ دنیا کی معاشی سپر پاور کا انتباہ ہے۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے جو بجنا شروع ہوئی ہے اور جب تک چھٹی نہیں ہو جاتی سارے بچے گھر نہیں چلے جاتے بجتی رہے گی۔
یہ انتباہ اس ملک کے وزیر خارجہ کا ہے جو سی پیک پر 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے ۔ یہ انتباہ ہے کہ ہمارے ساتھ وہ کھیل نہیں کھیلا جا سکتا جہاں جنرل ضیا الحق مومنین کو جہادی بنا کر شہید کراتا ہے اور جنرل مشرف جہادیوں کو دہشت گرد بتا کر جہنم واصل کراتا ہے اور دونوں کا مقصد ریاست کی ترقی نہیں بلکہ کارپوریٹ مفادات اور اپنا اقتدار ہوتے تھے۔
آئی ایس آئی کا تجزیاتی ونگ ایجنسی کا دماغ سمجھا جاتا ہے جبکہ فوج کا ملٹری اپریشنز دائریکٹوریٹ فوج کا دماغ ہے جو چیف کو مشورے دیتا ہے اور پالیسی سازی کی سفارشات کرتا ہے analysis wing کا ڈی جی ہماری نظر میں پاکستان کا سب سے طاقتور انسان ہے یہ اگر چاہے تو دنیا کی سپر پاور امریکہ کو افغانستان میں ناکوں چنے جبوا دے اور بھارت کو پاکستان کے ساتھ جنگ میں گھسیٹ کر دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیل دے ۔
اس ونگ کے پاس دنیا بھر سے اپنے ایجنٹوں کی معلومات آتی ہیں ،پاکستانی سفارتخانوں کی تمام خط و کتابت ،مواصلاتی جاسوسی کے علاوہ ملکی اور بین القوامی میڈیا ،تھنک ٹنکوں ہر معاملہ پر اس کی نظر ہوتی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں تیار کرتا ہے اور اپنے سسٹم کو فراہم کرتا ہے ۔
جنرل ضیاالحق کے طیارے کی تباہی کی پیشگی خبر سسٹم دے چکا تھا ،ضیا لحق تمام جنرلوں اوردو اہم امریکیوں کو اپنے طیارے میں بٹھا کر خود کو محفوظ سمجھ بیٹھا تھا ایجنسی کا سربراہ اس اہم ترین واقعہ یا سانحہ سے12 گھنٹے قبل کوئٹہ چلا گیا تھا اور ایجنسی کے بریگیڈئر امتیاز نے نہ جانے کس کے کہنے پر جنرل اختر کو بھی غلط اطلاع دے کر جنرل ضیا کے طیارے میں جانے پر مجبور کر دیا۔
جنرل مشرف نے اب انکشاف کیا ہے کہ وکلا تحریک کے پیچھے جنرل کیانی تھا یعنی آئی ایس آئی ، بینظر بھٹو نے جنرل کلو کو چیف بنا کر آئی ایس آئی پر قابو پانے کا سوچا لیکن ایجنسی کا سسٹم بعض معاملات میں اس قدر خود کار ہوتا ہے کہ چیف بھی بے بس ہو تا ہے۔ جی ایچ کیو کا ملٹری اپریشنز ڈایریکٹوریٹ ساری فوج کی نبض ہے چیف اس سے مشورے بھی لیتا ہے اور اس کی سفارشات پر عمل بھی کرتا ہے ۔لیکن ان دو طاقتوراداروں کے باوجود سسٹم کام کیوں نہیں کرتا یہ بہت اہم سوال ہے اور جب مشترکہ مفاد ہو تو سسٹم کام کرتا ہے۔
ایجنسی کا چیف جنرل ضیا الدین وزیراعظم کا بااعتماد تھا لیکن ایجنسی جنرل مشرف کو خبر دے چکی تھی کہ سری لنکا کے دورہ کے دوران وزیر اعظم آرمی چیف کو برطرف کر دیں گے مشرف نے دورہ سے قبل جنرل عزیز ،جنرل شاہد اور جنرل محمود کو احکامات دے دئےکہ اس صورت میں انہوں نے حکومت کو ٹیک اور کر لینا ہے اور انہوں نے کیا ۔
جب اس قدر شاندار ادارے موجود ہیں تو پھر سسٹم کام کیوں نہیں کرتا یہ بہت بڑا سوال ہے سٹاف کورس کیلئے امریکہ اور برطانیہ جانے والے تمام افسران کو پتہ ہے کہ انہیں سی آئی اے اور فری میسن تنظیم قابو کرنے کی کوشش کرتی ہے اور طریق کار کا بھی پتہ ہے کہ کس طرح بچوں کی امریکی تعلیمی اداروں میں سکالر شپ پرتعلیم کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل رہائش کی بھی کچھ سر پھرے افسر پیشکش ٹھکرا دیتے ہیں اور کچھ قبول کر لیتے ہیں اور جو پیشکش ٹھکراتے ہیں وہ جی ایچ کیو کو رپورٹ بھی کرتے ہیں اور ملٹری اپریشنز والے اس معاملے سے باخبر ہو جاتے ہیں یہ ملک جس طرح وطن کی آن پر شہید ہونے والے نوجوان فوجی افسران اور جوانوں کاہے اسی طرح ایک عام پاکستانی کا بھی ہے تو کیوں سسٹم نہیں بنایا جاتا کہ سٹاف کورس پر امریکہ جانے والے جس فوجی افسر کے بچے امریکی اور برطانیوی تعلیمی اداروں میں داخلے لیتے ہیں ان پر شک کیا جائے کہ انہوں نے امریکی ایجنٹ بننے کی پیشکش قبول کر لی ہوگی۔
کیوں ایسا سسٹم نہیں بنایا جاتا کہ میجر جنرل اور لیفٹنٹ جنرل کے عہدہ پر پہنچنے والا کوئی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد کسی امریکی کسی برطانیوی ادارے اور کسی خلیجی ملک میں ایڈویزر کی ،تھینک ٹنک کی یا مشیر کی ملازمت نہ کر سکے ۔
پاکستان دنیا کا اہم ترین ملک ہے ،پاکستان ایٹمی طاقت ہے پاکستان دنیا کے اہم ترین خطہ میں ہے ،پاکستان سی پیک کی وجہ سے خطہ میں کھیل تبدیل کرنے والا ملک بننے والا تھا تو کیوں اس طاقتور ملک کی طاقتور پیشہ ور فوج کوئی ایسا سسٹم نہیں بناتی جو بھارتی فوج نے بنا لیا ہے جو چینی فوج نے بنا لیا ہے دونوں ملک تین دہائیاں پہلے پاکستان کی طرح ترقی پزیز ملک تھے اور معاشی بحران کا شکار تھے یہاں بھی بہترین فوجی افسر جنہوں نے مستقبل میں فوج کی قیادت کرنا ہوتی تھی سٹاف کورس کیلئے برطانیہ اور امریکہ جاتے تھے لیکن اب انہوں نے سسٹم بنا لیا ہے ان ملکوں کی فوجی قیادت کے بچے امریکی اور برطانیوی اداروں میں سکالر شپ نہیں لیتے اور نہ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد مغربی ملکوں میں مستقل رہایش رکھتے ہیں اور ملازمت لیتے ہیں ۔جب آئی ایس آئی کےتجزیاتی ونگ کو اور ملٹری اپریشن ڈائریکٹوریٹ کو پتہ ہے کہ مستقبل کی فوجی قیادت کو خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کیا حربے استعمال کئے جاتے ہیں تو کیوں سسٹم نہیں بنایا جاتا کہ یہ سلسلہ ہمیشہ کیلئے چین اور بھارت کی طرح ختم ہو جائے اور اس بات کا 100 فیصد یقین ہوجائے کہ مستقبل کی فوجی قیادت کو خریدنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔کم از کم آئی ایس آئی کو تو اس ضمن میں ضرور کچھ کرنا ہو گا اور کیا ہی اچھا ہو اگر اس معاملہ پر بھی تحقیق کر لی جائے کہ چینی صدر کے سی پیک پر دستخط کیلئے دورہ پاکستان سے قبل جو دھرنہ دیا گیا تھا اور جس کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ چھ ماہ تاخیر کا شکار ہو گیا تھا اس دھرنے کے دوران جن اعلی افسران نے کوئی کردار ادا کیا تھا ان میں سے کونسے اس وقت امریکہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد مقیم ہیں اور کتنے متعلقہ افسران کے بچے امریکی اور برطانیوی تعلیمی اداروں میں سکالز شپ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اسی طرح اعلی عدالتوں کے وہ جج جنہوں نے محض وکیل کی حثیت سے اور غربت کے عالم میں اپنا سفر شروع کیا اور جن کے بچے ان کے دور وکالت کے دنوں میں سرکاری سکولوں میں پڑھتے تھے وہ کس آمدن سے برطانیہ اور امریکہ کی تعلیمی اداروں میں جا پہنچے ہیں جہاں ایک بچےکا سالانہ خرچہ ایک کروڑ روپیہ کے لگ بھگ ہے انکی کوئی لاٹری نکلی ہے یا پھر کوئی اور معاملہ ہے ؟پاکستانی لاٹری پرائز بانڈ کی سب سے بڑی قیمت سات کروڑ روپیہ تھی جو 40ہزار روپیہ کے انعامی بانڈ کی ہے اگر پہلا انعام بھی نکلا ہو پھر بھی تین بچوں کو امریکہ اور برطانیہ میں نہیں پڑھایا جا سکتا کیا ہی اچھا ہو اگر آئی ایس آئی اس معاملہ کو بھی ذرا دیکھ لے ۔