بکل دے وچ چور، مذہب اور حب الوطنی کی چادر
Reading Time: 3 minutesمذہب اور حب الوطنی کی چادر میں کیا کچھ چھپ جاتا ہے انسان سوچ کے دنگ رہ جاتا ہے۔ یہ دو چادروں کی بکل ایسی ہے کہ انصاف اگر اس کے اندر جھانکنے کی بھی کوشش کرے تو اس کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔
ذرا تصور کیجیے کہ خدانخواستہ سڑک پر کسی خاتون کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے اور وہ خون میں لت پت پڑی ہے۔ اس کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانا انتہائی ضروری ہے لیکن آپ اس خوف سے اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتے کہ مجمع آپ پر پل پڑے گا کہ پرائی عورت کو ہاتھ کیسے لگایا۔ اور اگر وہ خاتون کسی کنزرویٹو سماجی طبقے سے ہے تو اس کے عزیز رشتے دار آپ کے شکر گزار ہونے کی بجائے آپ کی جان کے درپے ہو جائیں گے کہ آپ نے اس خاتون کو ہاتھ کیوں لگایا۔ ماضی میں کئی ایسی مثالیں دیکھ چکے ہیں جہاں مرد ڈاکٹر کو خاتون کا علاج کرنے پر قتل کر دیا گیا۔
ہمارے ملک میں انصاف کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ خاموش تماشائی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستانی سماج تو ہزاروں برس سے انصاف کا متلاشی ہے لیکن ناانصافی کو جی جی کر حالت ایسی ہو گئی ہے کہ قصائی ایک بھیڑ کو ذبح کرتا ہے اور باقی اپنی زندگی کے بچے کھچے ایام کو جینے کی تمنا میں اس کی موت کا غم بھول جاتی ہیں۔ ایک آدھ بھیڑ تھوڑا سا ممیا کر بالآخر چپ ہو جاتی ہے اور کافی ساری بھیڑیں تو اسے اب ظلم سمجھتی ہی نہیں اور دوسری بھیڑوں کو بھی سمجھاتی ہیں کہ یہ قصائی کا استحقاق ہے۔ گویا دل میں برائی کو برا خیال کرنے کے درجے سے بھی نیچے جا چکی ہیں۔
مذہب اور حب الوطنی ان معاشروں میں ظالم کو ظلم کی مکمل اجازت دیتے ہیں جہاں لوگوں کو نہ تو مذہبی تصورات سے آگاہی ہوتی ہے اور نہ ہی حب الوطنی کے جذبے کا شعور۔ جہاں مذہب اور حب الوطنی محض نعرے بن کر رہ جاتے اور اخلاقیات سے ان کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ میں مذہب کو سمجھنے کی کوشش کیوں کروں جب چند بلند آہنگ نعرے مجھے صف اول کا مذہبی رہنما بنا سکتے ہیں۔ میں ٹیکس بھروں، صفائی ستھرائی کا خیال رکھوں، رشوت نہ دوں، یہ ساری کسرت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جب چند افراد کی توصیف اور چند جذباتی نعروں کے عوض مجھے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ مل سکتا ہے۔
مجھے اپنے رجحانات پہ کام کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، بس ان رجحانات کا پرچم بنا کر گلی گلی پھرنا ہے اور نعرے بازی کرنی ہے۔ کسی صاحب مزار کے نظریہ تصوف پہ چار کتابیں پڑھ کر وہ نہیں مل پائے گا جو دو دیگیں چڑھانے اور مجاوروں کو نذرانہ پیش کرنے سے ملے گا۔
گزشتہ روز ایک باوردی ملازم کی ویڈیو دیکھی جس میں وہ احتجاج کرنے والوں کے سامنے پہلے اپنے ایمان کی گواہی دیتا ہے پھر بات شروع کرتا ہے جبکہ احتجاج کرنے والوں نے بلا خوف خطر لوگوں کی گاڑیاں جلائیں، لوگوں کے رستے بند کر کے انہیں اذیت پہنچائی، مریض رستوں میں دم توڑ گئے، لیکن انہیں اپنے ایمان کو ثابت کرنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوئی، ان کے چہروں پر شرمندگی اور پشیمانی کے کوئی آثار نہیں تھے اور وہ اپنی بکل کے اندر بیٹھ کر مسکرا رہے تھے کیونکہ اس بکل کے اندر انصاف کا داخلہ ممنوع ہے۔
کتنی گردنیں حب الوطنی کی تلوار سے کاٹ دی گئیں اور انصاف کی آنکھیں بند رہیں۔ ایک منصف نے بھیڑوں کے قتل عام پر سوال اٹھایا تو بھیڑیں اس پر جھپٹ پڑیں کیونکہ بھیڑیں اس کی ہیں جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ شاید روز محشر ایسے مقتولین کی تعداد سب سے زیادہ ہو جنہیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا ہو۔ لیکن کیا خاموشی اور مصلحت کوشی بھی ایک جرم نہیں؟ لیکن یہ خاموشی تب ٹوٹے گی جب لوگوں پر انصاف کے تصورات واضح ہو جائیں گے۔ جب ہری ہری گھاس چرنے سے پہلے یہ سوچا جائے کہ یہ گھاس کس کی ہے اور مجھے کیوں دی گئی ہے۔ لیکن بھیڑیں ایسا کب سوچتی ہیں۔
اگر اس خطے کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو انصاف کی آواز بلند کرنے والی آوازیں کبھی غالب نہیں آ سکیں۔ صحیح اور غلط کی تفریق کرنا اس خطے کا اصول نہیں۔ اس خطے کا اصول پیروی ہے۔ سوال اٹھانا یہاں کا دستور نہیں۔
نہ جانے خدا کو اس سر زمین پر کب رحم آئے گا جب وہ ایسا مسیحا بھیجے گا جو بکل کے چوروں کو بے نقاب کرے گا۔ جو ظالم کو ظلم کے بعد کسی اوٹ میں چھپنے نہیں دے گا۔ جو مکاریوں اور فریب کاریوں کے تار عنکبوت کو توڑ ڈالے گا۔ کب یہ زمین انصاف کا سورج طلوع ہوتے دیکھے گی۔ کب سوال کرنے کی آزادی نصیب ہو گی۔ اور کب وہ وقت آئے گا جب ظالم عقیدت اور حب الوطنی کے پردے کے پیچھے چھپ نہیں پائیں گے۔ کیا جہل کا راج یونہی چلتا رہے گا؟