فتوی نہ لگے تو عرض ہے!
Reading Time: 3 minutesتحریر: عبدالجبارناصر
محترم ومکرم سعد رضوی صاحب و شوری کے احباب!
عرض ہے کہ منسلک قرار داد کے اس متن پر بہت غور کیا، اس لیے بھی کہ تقریبا 19 سال سے بطور پارلیمانی رپورٹر خدمات سرانجام دینے کا موقع مل رہاہے۔
قومی اسمبلی میں زیر بحث قرار داد کا اگر متن واقعی منسلک والا ہی ہے اور اس کی تیاری میں آپ کی مشاورت، معاونت یا آپ کی اجازت شامل ہے تو پھر یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ قرار داد کے ایشو پر تحریک کی قیادت دانستہ یا غیر دانستہ مجرمانہ غفلت، بلکہ قابل تعزیر جرم کی مرتکب ہے۔
اسمبلی کارروائی رپورٹ کے مطابق ایوان میں قرارداد ایک پرائیویٹ ممبر نے پیش کی ہے اور یہ عمل فرد کاہے، منظور ہوجائے تو یہ ایوان کی پراپرٹی ہے۔ ایوان حکومت کے لئے ڈائریکشن طے کرتا ہے، مگر سابقہ معاہدے کے مطابق قرارداد تو حکومت نے پیش کرنی تھی۔ اس قرارداد میں حکومت کا کردار صرف اس حد تک ہوگاکہ دیگر جماعتوں کے ارکان کی طرح حکومت کے حامی ارکان حمایت مخالفت کرسکیں گے۔
نکتہ نمبر ایک ہی آپ کا اصل ایشو ہے ، قرارداد میں صرف بحث کا ہی ذکر ہے، سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ شامل ہی نہیں ہے۔ قرارداد منظور ہوتی ہے تو سفیر کی ملک بدری کیسے ممکن ہوگی؟ کیا بحث کے بعد نظرثانی قرارداد آئے گی؟ پھر تو اس میں پارلیمانی قوتوں کا کردار ہوگا، اور پھر آپ کہاں کھڑے ہوں گے؟
باقی دونوں نکات پر کیا آج سے پہلے کوشش نہیں ہوئی؟
قائدین محترم!
اگر یہی قرارداد پیش کرنی تھی تو پھر اتنا ہنگامہ، اتنی شہادتوں، کروڑوں کی املاک کو نقصان، سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم، عوام کو تقریبا ایک ہفتہ تک پریشان رکھنے کی ضرورت کیا تھی، اس سے بہتر قرارداد تو ایک عام رکن بھی پیش کرسکتا تھا۔
پیش کی گئی قرارداد میں حکومت کے لئے اصل ایشو یعنی فرانسیسی سفیر کی ملک بدر کے حوالے سے کوئی ڈائریکشن نہیں ہے اور جو ڈائریکشن آخری پیراگراف میں ہیں وہ ایک طرف تنظیموں کے لیے دھمکی اور دوسری طرف احتجاج کو محدود سے محدود کرنے کے لیے ہے۔ یعنی آپ کی قرار داد کی روشنی میں جائز ایشوز پر بھی عملا احتجاج کا دروازہ بند ہوگا۔ الگ تھلگ جگہ والی بات درست ہے، مگر وہاں جہاں انصاف یکساں ہو، لوگوں کی بات سنی جاتی ہو، احتجاج کو محسوس کیا جاتا ہو، حکومتوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور عوام کو حکومتوں اور انصاف کے اداروں سے امید ہو۔
حضور!
بین الاقوامی تعلقات کے معاملات کے حوالے سے قرارداد میں کی گئی سفارش اور فرد، گروہ یا جماعت کو دی جانے والی دھمکیوں اور پارلیمنٹ کی سفارش پر عمل کی صورت میں پھر آئندہ اس طرح کے ایشوز پر آپ یا دیگر کہاں کھڑے ہوں گے یا قانونی کارروائی سے کیسے بچا جا سکے گا؟
حضرات !
آخری گزارش ہے کہ اس پورے عمل میں سیکیورٹی فورسز اور سول شہداء کا خون کس کے سر ہوگا؟
شہداء، زخمیوں اور جن کی املاک کو نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ کون کرےگا؟
ان سب قربانیوں، نقصان اور ملک کی بد نامی کا نتیجہ کیا نکلا؟
حالانکہ روز اول سے حکومت کے اس موقف میں وزن نظر آ رہا تھا کہ ان حالات میں آپ کے مطالبے پر کلی عمل مشکل ہوگا۔
حضور!
مکرر عرض ہے کہ قرارداد کی تیاری میں کسی بھی طرح کا تعاون آپ کا ہے تو پھر جوابدہ حکومت نہیں، بلکہ آپ ہیں، کیونکہ قرارداد میں حکومت نے اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر درست ثابت کردیا ہے۔
اور ہاں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ختم نبوت کا ایشو کسی فرد، گروہ یا مسلک کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا ہے، اس ضمن اپنے ثالثوں کی گفتگو پر بھی غور فرمائیں۔
کوئی گستاخی محسوس کی ہے تو،ہم معافی کے طالب ہیں۔
از
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ادنیٰ غلام