کالم

اے کاش کہ یوں ہوتا

اپریل 22, 2021 3 min

اے کاش کہ یوں ہوتا

Reading Time: 3 minutes

محمد وسیم

برسوں پہلے میں اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں پڑھتا تھا تو ایک سولہ سترہ سالہ کھلنڈرا سا نوجوان تھا مگر کتابوں میں کچھ دلچسپی ہو چلی تھی۔ اس سلسلے میں جناح لائبریری گوجرانوالہ اور اردو بازار گوجرانوالہ آنا جانا رہتا تھا۔ یہ میرے مغربی ادب اور فلسفہ پڑھنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ ان دنوں میں اقبال سے نیا نیا متاثر ہوا تھا اور اردو بازار کی سب سے مشہور دکان مکتبتہ الفرقان کے مالک قاری انیس الرحمن سے میری دوستی ہو چکی تھی۔ مولانا سرفراز خاں صفدر مرحوم کے بیٹے قاری حمادالدین الزہراوی کا شاگرد ہونے اور علامہ زاہد الراشدی کے شہر سے ہونے کے باعث وہ میری بہت عزت کرتے تھے۔ میں ان سے ہر قسم کی کتابیں لیتا تھا۔ وہاں سے بہت سے کتابیں میرے ہاتھ لگیں جہنوں نے مجھے گمراہ کیا مگر بہت سی کتابیں ایسی تھیں جنہوں نے نہ صرف میری فکری سمت درست کی بلکہ زندگی کو بدل کر رکھ دیا جن میں مولانا ابوالکلام آزاد کی غبار خاطر، مولانا غلام رسول مہر کی خود نوشت مہر بیتی، علامہ صادق حسن کی تذکیہ نفس اور مودودی صاحب کی تفہیم القران شامل تھی۔

موسم گرما کی ایک دہکتی دوپہر لاہور سے قاری انیس کے بھائی حافظ عتیق الرحمان (رحمانیہ پبلشرز اردو بازار لاہور والے) تشریف لائے۔ کچھ دیر کی جان پہچان اور ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد انہوں نے مجھے "راز حیات” پیش کی۔ یہ میرا مولانا وحید الدین خاں صاحب سے پہلا تعارف تھا۔ اس کے بعد میرا خیال ہے کہ میں نے شعور کے جتنے بھی مراحل طے کیے ہیں اس میں مولانا کے علمی کام کے گہرا عمل دخل رہا۔ پھر کتنے ہی مواقع آئے جب میں فکری طور پر الجھا؛ جب جب ایسا ہوا میں نے مولانا سے رجوع کیا۔

مولانا وحید الدین کا شمار عالم اسلام کے ان چند مجددین میں ہوتا ہے جنہوں نے دین کو ایک نئے زاویہ اور اس کے دور کے مطابق دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ ہر دور میں دین کو الگ الگ طرح سے ٹرانسلیٹ کیا جاتا ہے کہ دین کو اس دور کے مطابق ڈھالنے کے بغیر دین کی اصل روح تک پہنچنا اور اس کی پیروی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسے اجتہاد کہا جاتا ہے اور اس کی ذمے داری آئمہ اکرام پر ہوتی ہے۔ میں مولانا وحید الدین کو عصر حاضر کے بلند پایہ مدبرین اور ریلیجیس سائنٹسز میں سے ایک اس لیے سمجھتا ہوں کہ ان کی خدمات کئی حوالوں سے منفرد ہیں۔ خاص طور سے قاہرہ سے شائع والی تفسیر تزکیرالقرآن میں انہوں نے دین کی بہت سی نئی جہتوں کو دریافت کیا اور خدا کے کلام کو علم، فلسفہ، دلیل اور منطق کی روشنی میں سمجھا اور اس کے علاوہ قرآن کی انگریزی زبان میں ایک ایسی انٹرپٹیشن/کامنٹری لکھی جسے میری رائے میں "میگھنم اوپس” کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ ان کے اسی کام کی وجہ سے اعظم گڑھ، اترپردیش کے یہ فرزند عرب و عجم میں متعارف ہوئے۔ انہیں دنیا کے کے پانچ سو بااثر مسلمانوں میں شمار کیا گیا اور ہندوستانی حکومت نے انہیں ہندوستان کے دوسرے بڑا سول ایوارڈ سے نوازا۔

چند ماہ پہلے میں یونیورسٹی آف لندن کے پہلو میں ٹورنگٹن روڈ پر واقع دنیا کے سب سے بڑے بک اسٹور ‘واٹر اسٹونز’ کی چھٹی ساتویں منزل پر کچھ کتابیں دیکھ رہا تھا کہ ایک نظر مولانا کی کسی کتاب پر پڑ گئی۔ اسے خریدنے کو بہت جی للچایا مگر ایک خواہش بھی ابھری کہ کاش اس پر کسی طرح مولانا کے دستخط ہوں جائیں مگر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ ایسا ممکن نہیں کہ یہ شرف مجھ ایسے گنہگار کو کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ میں درست تھا مگر دل کے کسی گوشے میں یہ خواہش برقرار رہی کہ شاید کبھی ایسا ممکن ہو سکے۔ مگر اس وقت یہ تو سوچا ہی نہ تھا کہ وہ جلد ہی داغ مفارقت دے جائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بہرحال خدا کے فیصلے ہیں کہ شاید خدا نے مولانا سے جتنا کام لینا تھا لے لیا۔ خدا ان کے درجات بلند کرے۔ آمین

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے