مہرہ
Reading Time: 2 minutesمہرہ چال چلنے کے کام آتا ہے، چالباز اس کا استعمال کرتا ہے اور جہاں ضروری سمجھا جائے اس مہرے کو کسی چال میں ہی مروا دیا جاتا ہے، کھیل میں تو اسے کھلاڑی کی زہانت مان کر داد دی جاتی ہے، لیکن حقیقی زندگی میں کسی کو مہرہ بنا دیا جائے تو کیا کیا جائے؟
یہ کہانی ہے محکمہ پولیس کے ایک ایسے جانباز کی جو ڈکیت گروہوں کی ریکی کرتے کرتے ان سے تعلق بنا کر انہی کی اطلاع پر کارروائیاں کرتے کرتے اتنا آگے چلا گیا جہاں سے واپسی ناممکن ہو گئی۔
کئی بار مصدقہ اطلاعات پر بھی کچھ ہاتھ نہ لگا، شاید اس کو اعتماد کے لیے اسے آزمایا جا رہا تھا، بہر حال بڑے مقصد تک پہنچنے کے لیے وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں نہ صرف نظر انداز کرتا رہا بلکہ تعلقات گھر تک وسعت اختیار کر چکے تھے۔
شہر کی بڑی سے بڑی واردات جس کا کوئی کھوج نہیں لگا پاتا تھا افسران وہ کام اسے سونپتے، جسے وہ کھڑے کھڑے طریقہ واردات دیکھ کر حل کر دیتا۔ وہ نہ صرف ملزمان بلکہ ان کے ساتھیوں اور گروہ تک پہنچ جاتا۔دنیا کے انتہائی مطلوبہ افراد بھی کسی ایسے ہی اپنے کی جاسوسی کا شکار بنتے ہوئے قانون کے شکنجے میں آتے ہیں۔
وقت گزرتا رہا ، اس پولیس افسر کو سینئرز اپنے نمبرز بنانے اور کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔
اور پھر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ دوستی میں فیصلہ کن وقت آتا ہے، جب انہیں بھی چکما دے کر اپنوں کے ہاتھوں دبوچا جاتا ہے، گرفتار تو ہو گئے لیکن اس جان فروش کی فیملی کے لیے بہت بڑا طوفان کھڑا ہو جاتا ہے، کل کے جگری یار آج جان لینے کے درپے ہوتے ہیں، مجبورا اسے اپنی فیملی کو شہر سے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کرنا پڑتا ہے۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ انتہائی دردناک ہے ، جب چور ، ڈاکو پکڑے جاتے ہیں تو کیونکہ وہ مہرہ اب پولیس کی ضرورت نہیں ہوتا اس لیے ایسے اہلکار کو جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ تعلقات کے جرم میں سزا دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے، مطلب کام ہو جانے کے اب محمکے کو اس کے تمام تعلقات جرم نظر آ رہے تھے۔
شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے اگر پیشہ ور مجرموں سے ٹکر لینی ہے تو ایسے اہلکاروں کو کام کا موقع بھی دینا ہو گا، ریاست کو ایسے جانبازوں کو سپورٹ کر کے دوسروں کے لیے مثال قائم کرنی چاہیے۔
البتہ محکمے کا کسی بھی ایسے اہلکار کی جان کے تحفظ اور اس کو جرائم کی دنیا کی طرف نکلنے سے بچانے کے لیے بھی نظام کار طے کرنا ضروری ہے۔