اسٹیبلشمنٹ کی چوائس کون، شہباز شریف یا عمران خان؟
Reading Time: 5 minutesاسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ تصور کیے جانے والے شہباز شریف دوسری مرتبہ جیل کاٹ کر واپس آ گئے ہیں۔ عمران خان کے تقریباً ڈھائی سالہ دور اقتدار میں سے ایک سال شہباز شریف نے جیل میں گزارا ہے۔ پہلی مرتبہ مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کو جب گرفتار کیا گیا تو وہ اس کے لیے ذہنی طور پر بالکل تیار نہیں تھے۔ کیونکہ کہاں جون، جولائی کی انتخابی مہم کے دوران حکومت دینے کی نوید سنائی جا رہی تھی اور کہاں ٹھیک تین ماہ بعد اکتوبر 2018 میں گرفتاری کا پروانہ تھما دیا گیا۔
نیب دفتر میں پیشی کے دوران جب ڈی جی نیب لاہور نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ Sir, I have a bad news for you۔ تو شہباز شریف کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں صاف پانی کیس میں بلا کر آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں گرفتار کر لیا جائے گا۔ لیکن سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف دوسری مرتبہ گرفتاری کے لیے ذہنی طور پر مکمل تیار تھے۔ ہائیکورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی پیشی کے دوران روزانہ صبح ذہنی طور پر تیار ہو کر جاتے تھے کہ شاید گھر واپسی ممکن نہ ہو۔
عمران خان اقتدار کا زور لگا رہے تھے اور شہباز شریف کو اپنے 35 سالہ تعلقات پر بھروسہ تھا۔ شہباز شریف کو گرفتار ہونے دینا ہے یا نہیں، با اثر حلقوں کے لیے بھی یہ فیصلہ کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔ کیونکہ عمومی تاثر تھا کہ شہباز شریف اسٹیبلیشمنٹ کے منظور نظر ہیں، ان کے خلاف انتقامی کارروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وزارت عظمیٰ کی خاطر بڑے بھائی کو چھوڑ سکتے ہیں، مسلم لیگ نون کی صدارت کے منصب پر فائز ہو کر بھائی کی مرضی کے خلاف فیصلے کر لیں گے۔
مگر گزشتہ دو سال کے دوران یہ سب تھیوریاں غلط ثابت ہوئیں۔ بار بار وزارت عظمی کی کرسی شہباز شریف کو چھو کر گزری، مگر شرط بھائی سے علیحدگی تھی۔ سینیٹ انتخابات کی ٹکٹس ہوں یا پھر کشمیر کے انتخابات کے لیے پارلیمانی بورڈ، پارٹی صدر ہونے کے باوجود نیب عدالت میں جونہی پیغام ملا کہ میاں نواز شریف کی ہدایت ہے، اپنے دستخطوں سے یہ جاری کر دیں۔ شہباز شریف نے ماتھے پر شکن ڈالے بغیر لبیک کہا۔ اگر شہباز شریف ذاتی مفاد اور اقتدار کو مقدم رکھتے تو ایک سال جیل نہ کاٹتے، اسٹیبلیشمنٹ کے منظور نظر ہوتے تو ادارے عمران پر شہباز شریف کو قربان نہ کرتے، کیونکہ شہباز شریف اداروں کے منظور نظر نہیں بلکہ ملک چلانے کے لیے ان سے بہتر کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ ویسے شہباز شریف جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر اسٹیبلیشمنٹ کے مسیحاؤں کو یاد کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہتے ہوں گے کہ
اک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
یہ حقیقت ہے کہ شہباز شریف اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ کی پالیسی کے خلاف ہیں، جانتے ہیں کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں اداروں کا کردار ختم کرنا ممکن نہیں بلکہ سیاستدان اپنی کارکردگی سے اس کردار کو محدود کر سکتے ہیں، جبکہ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ بات ہضم کرنا بہت مشکل ہے کہ جس شہباز شریف پر وہ تکیہ کرنے کا سوچتے ہیں وہ نواز شریف کا بھائی ہے، لیکن جب کارکردگی اور صلاحیتوں کا موازنہ کرتے ہیں تو شہباز شریف کی کارکردگی کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے۔
اسٹیبلیشمنٹ کے مسیحا بھی یہ بات دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کبھی مسلم لیگ نون سے بات چیت ہوئی تو اسی دروازے سے ہوگی۔ مارگلہ کی اوٹ میں بنے ہوئے کچھ گھروں میں شام کو یہی باتیں ہوتی ہیں کہ ”نواز شریف اپنے مخالف کو کبھی نہیں بھولتا“ اگر ہم اپنی پالیسی سے دستبردار ہو گئے تو عوامی ریلا مسلم لیگ نون کو دوبارہ اقتدار کے مسند پر بٹھا دے گا۔ شہباز شریف سمیت کوئی بھی وزیراعظم بن جائے، پالیسی میاں نواز شریف کی ہی چلے گی اور ”نواز شریف اپنے مخالف کو بھولتا نہیں ہے“۔ مشرف کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔
یہی وہ بد اعتمادی ہے جو بار بار شہباز شریف کو جیل بھیجتی ہے، یہی وہ بداعتمادی ہے جس میں سلمان شہباز سے بات تو کی جاتی ہے مگر اعتماد نہیں کیا جاتا، یہی وہ بد اعتمادی ہے کہ زبیر عمر کی ملاقات کی تشہیر کردی جاتی ہے۔ اگر مسلم لیگ نون نے اقتدار میں آنا ہے تو اس خوف اور بد اعتمادی کو ختم کرنا ہو گا۔ وگرنہ پاکستان جیسے سیکورٹی اسٹیٹ ملک میں صرف عوامی سمندر اقتدار کا راستہ نہیں دکھا سکتا، ایک ایسا ملک جس میں عدل کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ ہائیکورٹ کے ججز کی تعیناتی ہو یا پھر جسٹس قاضی فائز عیسی کا معاملہ، جسے انصاف کے حصول کے لیے دو سال ایڑیاں رگڑنا پڑیں۔ حیف صد حیف، میں تو صرف اس پر یہی کہہ سکتا ہوں کہ
ہے فیصلہ خود باعث توہین عدالت
کچھ کہہ کر میں توہین عدالت نہیں کرتا
ایسا ملک جہاں پر عدلیہ، مقننہ، ایگزیکٹیو، الیکشن کمیشن سب سسکیاں لے رہے ہوں وہاں ایک طاقتور منظم ادارے سے ٹکرانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ کاش گزشتہ 73 سالوں میں ہم نے اس ملک کو مضبوط عدالتی نظام دیا ہوتا، پارلیمنٹ کو مضبوط کیا ہوتا، ججز کی تعیناتی کا ایسا شفاف نظام بنایا ہوتا کہ جس سے واقعی جسٹس کارنیلیس اور رانا بھگوان داس جیسے ججز ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے بینچوں کی زینت بنتے، جنہیں مینیج کرنا تو دور کی بات ہے، ان سے بات کرنے کی بھی کوئی جرات نہ کرتا تو پھر ٹکرانا سمجھ میں آتا تھا۔ جس ملک میں آپ کے ہر اقدام کو عدالتوں کے ذریعے قانون کی مہر لگ سکتی ہو، وہاں سیاستدان تنہا کیسے لڑ سکتے ہیں؟
شہباز شریف کی حالیہ گرفتاری کی اسٹیبلیشمنٹ نے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ عمران خان کی ضد نے متحرک قوتوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ شہباز شریف بھی جیل میں تب تک پرسکون ہو کر بیٹھے رہے، جب تک احد چیمہ، حمزہ شہباز سمیت ان کے دیگر ساتھیوں کی ضمانت نہیں ہو گئی۔ میری اطلاعات کے مطابق شہباز شریف نے اپنی مرضی کے وقت کا انتخاب کر کے ضمانت دائر کی۔ رہائی سے قبل زبان زد عام تھا کہ شہباز شریف کی جیل میں اہم شخصیت سے ملاقات کے بعد رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے، مگر دو رکنی بنچ کے اختلاف نے اس تھیوری کو بھی دفن کر دیا۔
مگر یہ ضرور ہے کہ شہباز شریف کی رہائی معاملے میں طاقتور حلقے نیوٹرل ضرور ہو گئے تھے، پاکستان جیسے ملک میں طاقتور حلقوں کا نیوٹرل ہونا بھی بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ کیس کچھ تھا نہیں، طاقتور حلقے نیوٹرل ہو گئے اور یوں ہائیکورٹ کے پاس بھی ضمانت دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ آئندہ چند روز میں ہائیکورٹ کی اجازت کے بعد شہباز شریف کے لندن جانے کا بھی امکان ہے، بیرون ملک چند ہفتوں کے لیے جائیں گے مگر جلد واپس آ کر دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات کی ابھی سے تیاری شروع کریں گے۔
آبپارہ کے سیاسی امور کے انچارج بھی تبدیل ہوچکے ہیں، شہباز شریف آئندہ آپشن ہوسکتے ہیں، اگر وہ طاقتور حلقوں کو میاں نواز شریف سے متعلق یقین دلا دیں کہ ان کے خلاف کچھ نہیں ہو گا۔ جس نواز شریف کو خاکسار جانتا ہے وہ دشمن کو معاف کر دیتے ہیں مگر بھولتے نہیں۔ اسٹیبلیشمنٹ کو یہی ڈر بلاول اور زرداری کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ مگر پاکستان کی مضبوط ترین اسٹیبلیشمنٹ بھی آصف زرداری کی کرپشن کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، بدانتظامی میں پی پی پی بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی، پنجاب میں ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں آپشن پھر مسلم لیگ نون ہی بچتی ہے، اور مسلم لیگ نون میں شہباز شریف کھڑا نظر آتا ہے، مگر جب تک اسٹیبلشمنٹ کے دو صف اول کی شخصیات کو مضبوط گارنٹی نہیں دی جاتی، پہلا اور آخری آپشن عمران خان ہی رہے گا۔