پاکستان کھپے!
Reading Time: 7 minutes سنہ ۲۰۰۷ میں جب جنرل مشرف کا جانا ٹھہر گیا تو اسٹیبلشمنٹ کو جنرل ضیا الحق کے اچانک مرنے کے بعد سنہ ۱۹۸۸ والی صورت حال کا سامنا تھا۔ نواز شریف کو آزادانہ انتخابات کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں آنے دینا ایسے ہی تھا کہ جیسے جنرل ضیا الحق کے مرنے کے بعد ذولفقار علی بھٹو قبر سے اٹھ کر وزیراعظم منتخب ہو جاتے۔ ایک اور وزیر اعظم کو اب قتل کے الزام میں عدالت سے پھانسی دلوانے والا کام بھی ممکن نہیں رہا تھا، تو ایسے میں وہ کیا ہو سکتا تھا کہ نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے ایسے روکا جائے اور وہ بھی اس انداز سے کہ خود نواز شریف بھی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انجینئیرنگ پر آواز نہ اٹھا پائے؟ اور اگر نواز شریف کا راستہ روکنا تھا تو پھر لا محالہ دوسرا بڑا لیڈر بے نظیر بھٹو کی شکل میں رہ جاتا تھا، مگر کیا بے نظیر بھٹو کو تیسری بار شراکتِ اقتدار پر قائل کیا جا سکتا تھا؟ کیا ۲۰۰۷ والی بے نظیر وہی تھی جو ۱۹۸۸ میں تھی؟ ہر گز نہیں-
سنہ ۱۹۸۸ میں جنرل ضیا الحق کی طیارہ حادثہ میں موت کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو بھٹو کی بیٹی کی مقبولیت کے عوامی ریلے کا سامنا تھا جس کے آگے ایک قلیل مدت میں بند باندھ کر وقت حاصل کرنا مجبوری بن چکا تھا، اسٹیبلشمنٹ مرتی کیا نہ کرتی کہ دختر مشرق کا کوئی جائز سیاسی متبادل بھی نہ تھا، الیکشن میں سیاسی انجینئیرنگ کے ذریعے اختیار کو محدود اور اقتدار کو مشروط کر دیا گیا اور تب وہ مان بھی گئی تھی، مگر ٹھیک بیس سال بعد اب ۲۰۰۷ میں بے نظیر وہ والی بے نظیر نہیں تھی، دو مرتبہ بطور وزیراعظم سازشوں سے ہٹائے جانے والی بے نظیر بھٹو کے ساتھ بعد از مشرف شراکتِ اقتدار پر مذاکرات بے سود تھے اور اسٹیبلشمنٹ کا اس پر اعتماد کرنا بیوقوفی تھی۔ جنرل مشرف کے بعد نواز شریف یا بے نظیر بھٹو کی اقتدار میں واپسی اسٹیبلشمنٹ کے لئیے بڑے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی تھی، خدشہ تھا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف مل کر جنرل مشرف اور اس کے گماشتہ جرنیلوں اور سیاستدانوں کا آئینی احتساب بھی کریں گے.
تو پھر ایسا کیا ہوتا کہ نواز شریف اور بے نظیر مائنس ٹو ہو جاتے اور اپنے مائنس ہونے پر دونوں ہی آواز بھی نہ اٹھا سکتے؟
دشمن کے اوسان خطا کر کے (shock & awe) اس پر قابو پانا تسلیم شدہ جنگی حکمت عملی ہے، جب دشمن غیر مسلح عوام یا سیاستدان ہوں تو یہ کام اور بھی آسان ہو جاتا ہے، ایک وزیراعظم کے عدالتی قتل پر سیاسی سینہ کوبی سے زیادہ جب کچھ نہ ہوا تو قاتلوں کے حوصلے بڑھتے گئے، بات بھٹو کے عدالتی قتل سے بڑھ کر مرتضی بھٹو کے ماورا عدالت قتل تک جا پہنچی، دونوں کے قاتلوں کا احتساب نہ ہو سکا، پہلے ایک بیٹی نے سمجھوتہ کیا، پھر ایک بہن نے سمجھوتہ کیا، اسی روایت کو دیکھتے ہوئے قاتل اس نتیجے پر پہنچے کہ مقتول کے لواحقین کو دیت میں اقتدار قبول ہوتا ہے- تو جناب یہ طے ہوا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں مشرف کے بعد اقتدار میں نہ آئیں گے، وکلا تحریک عروج پر تھی کہ دسمبر ۲۰۰۷ میں سندھ کی رانی محترمہ بے نظیر بھٹو پنجاب کے شھر راولپنڈی میں پراسرار انداز میں قتل ہوئی، نواز شریف بھی اس ہسپتال پہنچ گئے جہاں بے نظیر بھٹو کا جسدِ خاکی موجود تھا، اس سانحے سے پہلے ہی جنرل مشرف کا جانا ٹھہر چکا تھا اور لگے ہاتھوں مشرف کے سیاسی تابوت کے اوپر بے نظیر بھٹو کا تابوت بھی رکھا دیا گیا، بے نظیر کے سیاسی اور قانونی وارث آصف زرداری نے سندھی زبان میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگا دیا جس کے بعد وہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت بھی بن گئے، اس نعرے سے اسٹیبلشمنٹ کو عوامی غم و غصے کے سیلاب کو پہلے پیپلز پارٹی کے اقتدار میں داخلے اور پھر جنرل مشرف کی ایوان اقتدار سے بیدخلی کے ذریعے قابوکرنے میں مدد ملی، یوں سانپ بھی مر گیا اور کین آف کمانڈ بھی نہ ٹوٹی بلکہ چین آف کمانڈ اینڈ کنٹرول بھی برقرار رہی-
دوسری طرف نواز شریف اینڈ کو سنہ ۲۰۰۸ کے انتخابی نتائج پر کیا بات کرتے وہ تو عوام کے دکھ میں شریک ہو کر اپنے وزرا کا حلف بھی جنرل مشرف کو دلوا بیٹھے۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ ایک بحال شدہ عدلیہ نے ایک بحال شدہ جمہوریت کو ایسا بے حال کیا کہ اللہ کی پناہ، وہی کچھ ہوا جو سنہ ۱۹۸۸ کی بحال شدہ جمہوریت کے ساتھ جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل نے سینوں پر تمغہ جمہوریت سجائے کیا تھا۔ پاکستان کھپے کے نعرے میں پاکستان کی جمہوریت کہیں مر کھپ گئی اور اسٹیبلشمنٹ کھپے کی صدا بلند ہوئی، مشرف کے کالے بوٹ کے کالے فرمان سے شروع ہونے والی کالے کوٹ اور کالی ٹائی کی تحریک سے جنم لینے والی کالی شیروانی کی جمہوریت کو میمو کمیشن میں پیش ہونے والے نواز شریف کی کالی واسکٹ سے پھر دھچکا لگایا گیا-
تاریخ خود کو دوہراتی رہی، اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ کی طرح پھر سے بڑی جماعتوں کو آپس میں لڑایا اور جب دونوں جماعتیں کھیل سمجھ گئی تو ان کی جماعت میں متبادل قیادت کو پروموٹ کیا یا پھر تحریک انصاف کی شکل میں ایک تیسری قوت ایجاد کر لی، پیغام بلند آہنگ اور واضح ہے کہ مال روڈ پر ہمارے مال کو چھیڑے بغیر ہی شاہراہ دستور تک پہنچا جا سکتا ہے- سنہ ۲۰۱۷ میں پاناما کیس کی آڑ میں جمہوریت کے عدالتی قتل کے بعد ۲۰۱۸ کے انتخابات میں اسی جمہوریت کا انتخابی قتل کیا گیا جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت وجود میں آئی-
تسلسل سے جاری اسٹیبلشمنٹ کی اس “ٹچ میں ناٹ” پالیسی کو عمران خان کی حکومت نے مزید دوام بخشا ہے، سیاسی انجینئرنگ میں یکتا تو پہلے ہی تھا، اب ملکی وسائل پر بھی بہت تیزی سے قومی سلامتی کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے، بنڈل آئی لینڈ کراچی سے لیکر مار گلہ اسلام آباد کی پہاڑیوں تک زمینوں پر حق جتایا جا رہا ہے اور عمران خان بطور وزیر اعظم انگوٹھے پہ انگوٹھا لگائے جا رہے ہیں، وزارت دفاع تو پہلے ہی گھر کی لونڈی تھی، اب وزارت اطلاعات کا کام بھی فوج نے سنبھال لیا ہے، یہ فواد چودھری اور شبلی فراز کیا بیچتے ہیں؟ ایک آرمی چیف تیس کی قریب اینکروں سے کئی گھنٹوں تک آف دی ریکارڈ گفتگو فرماتے ہیں اور ملکی سیاست پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں، ویسے تو وزیر اعظم بھی کچھ نہیں بیچتے، بیچتے تو بیچارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کچھ نہیں جنکے ہوتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب کا اہم ترین دورہ کرتے ہیں اور امریکی سیکریٹری خارجہ براہ راست ان سے رابطے میں ہوتے ہیں، کیا افغانستان میں بھی امن اور جمہوریت کا ٹھیکہ ایف ڈبلیو او کو مل گیا ہے؟ سعودی عرب ایک کروڑ نوکریوں میں سے پاکستان کو بڑا حصہ دینے کا اشارہ کیا کرتا ہے کہ وزیر اعظم سعودی عرب میں اپنے سفیر کو ہٹا کر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو سفیر لگا دیتا ہے، ایک وزیراعظم کو شرم بھی نہیں آتی کہ پوری دنیا کے سامنے اپنے سفارتکاروں کے ساتھ غیر سفارتی زبان استعمال کر کے ان کی تذلیل کرتا ہے اور اپنی کابینہ کے اجلاسوں کی اندرونی کہانی کی رپورٹنگ پر پیمرا کے ذریعے پابندی لگاتا ہے-
بیرون ملک پاکستانیوں سے ایک ڈیجیٹل روشن اکاؤنٹ سکیم میں ایک ارب ڈالر سے زائد رقم کیا آ گئی ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کی رالیں ٹپکنا شروع ہو گئی ہیں، جہانگیر ترین کے فنڈ رکنے کے بعد آئندہ الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کو بھی شاید بیرون ملک پاکستانیوں کی جیب موٹی نظر آنا شروع ہو گئی ہے، سفارتکاروں کا بے عزتی پروگرام، بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کے حق متعلق عارضی قانون سازی کا ڈرامہ، یہ سب اپنے بیرون ملک پاکستانی فنانسرز کو اگلے الیکشن کے لیے پھر سے بیوقوف بنانے کا پروگرام مکمل لگتا ہے-
اس کے علاوہ سعودی عرب اچانک پاکستان پر اتنا مہربان کیوں ہو رہا ہے؟ پاکستان نے سعودی عرب کی کونسی خواہش اب جا کر پوری کی ہے؟ یمن کی جنگ میں پاکستانی فوجیوں کو بھیجنے سے ہماری پارلیمنٹ نے تو انکار کر دیا تھا تو کیا اب جنرل ریٹائرڈ بلال بطور سفیر اس کا کوئی متبادل حل ڈھونڈیں گے؟ کیا پاکستان کے ریٹائر ہونے والے ہمارے تربیت یافتہ اور ہنر مند فوجی بھائیوں کے لئیے روزگار کے نئے مواقعے تلاش کیے جا رہے ہیں؟ یا "جہاد” سے تائب بے روزگار ہونے والے طالبان کو اب سیاست اور معیشت کے مرکزی دھارے میں لانے کے لیے سعودی عرب میں عزت کی ملازمت و کاروبار کے نئے مواقعے دئیے جائیں گے؟ پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانوں میں تو پاکستان کی متوازی حکومت کی طرح پہلے ہی متوازی سفارت خانے بنے ہوئے تھے، فوجی اتا شیوں کا ایک گروپ دنیا بھر کے سفارت خانوں میں اپنے سفیروں کا وہی احترام کرتا تھا جو اسلام آباد میں سویلین حکومتوں کا کیا جاتا ہے، اب سفارتکاروں کے ساتھ وزیراعظم نے جو یوتھیاپا کیا ہے اس کے بعد لگتا ہے کہ ان سفارت خانوں میں اب فارن سروس گروپ کے پیشہ ور سفارت کاروں کی جگہ نہیں رہے گی-
بظاہر اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے اشتراک سے اب سفارت خانوں کے ذریعے بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ نئی کاروباری شراکت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، جو سفارتکار اس میں ساتھ نہیں دیں گے ان کی جگہ ریٹائرڈ جرنیل لگا دیے جائیں گے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ جو اپوزیشن ووٹ کی عزت کی بات کر رہی ہے اسی اپوزیشن کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، سنہ ۲۰۱۸ کے انتخابات کو تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی کہنے والی یہ اپوزیشن جماعتیں قومی سیاست کو چھوڑ کر ایک ایک حلقے کی سیاست میں چند سو ووٹوں پر ایک دوسرے کے ہی مدِ مقابل کھڑی ہیں۔
ووٹ کو عزت دو کے نعرے تو لگے اور وزیر اعظم کو سیلیکٹڈ کا نام بھی دیا گیا مگر دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں ابھی تک کوئی ایسا ٹھوس بیانیہ نہیں دے سکیں کہ جس میں فوج کی سیاست، معیشت اور اب سفارتکاری میں بڑھتے غیر آئینی کردار کو روکنے کی بات کی گئی ہو، یہی ٹھوس بیانیہ ہی ان جماعتوں کی جمہوریت سے وفاداری کا ایک واحد ثبوت ہو گا باقی سب زبانی باتیں ہیں، سیاسی بیانیہ محض نعروں اور پریس کانفرنسوں کے بیانات سے نہیں بنتا بلکہ پارٹی کے منشور اور تحقیق سے جنم لیتا ہے، لگتا ہے دونوں جماعتیں اب بھی اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی نظر کرم کی منتظر ہیں، "میثاق پاکستان” کا ایک نعرہ لگا، اس کا کیا ہوا ؟ سنہ ۲۰۱۸ کے انتخابات میں دھاندلی پر پارلیمانی کمیٹی بنی، اسکا کیا ہوا؟ سینٹ انتخابات میں خفیہ کیمرے پکڑے گئے، کیا بنا؟ مریم نواز نے کسی جرنیل پر دھمکی دینے کا الزام لگایا، تبادلہ ہو گیا بات ختم؟ یا پھر اپوزیشن جماعتوں کو نظر آ رہا ہے کہ بات بہت آگے جا چکی ہے اور اب اچھے بچوں کی طرح انتظار کیا جائے، لگتا ہے اپوزیشن جماعتیں سنہ ۱۹۸۸ کی طرح ایک فکسڈ اوورز کا فکسڈ میچ کھیلنے کو پھر تیار ہیں، جہاں تین سال گذر گئے وہاں دو سال بھی گذر جائیں گے، شھباز شریف بھی لندن میں بھائی کو منا لینگے شاید یہ کہہ کر کہ بھائی جی آگے کی طرف دیکھیں پیچھے کی طرف دیکھا تو پتھر کے ہو جائیں گے، آپ کے ساتھ بڑا ظلم ہوا اس پر وہ معافی تلافی کے لیے بھی تیار ہیں بس اب ملک کا سوچیں حالات بہت خراب ہیں اور آپ لندن میں ہی رہیں تو بہتر ہے۔ باقی مریم نواز ہمارے پنجاب کی شان ہے آگے چل کر ان بچوں نے ہی قوم کی قیادت سنبھالنی ہے۔ بھائی جی بس دعا کریں کہ پاکستان ایک بار پھر کھپے!