برطرف جسٹس شوکت صدیقی کے مقدمے میں ججز عدالت چھوڑ کر کیوں گئے؟
Reading Time: < 1 minuteپاکستان کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی عدالتی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت ادھوری چھوڑ دی۔
منگل کو شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان کے دلائل جاری تھے جب بینچ کے سربراہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ برطرف جج کے آئی ایس آئی کے لوگوں سے رابطے تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ برطرف جج نے خود تسلیم کیا کہ ان کی خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقاتیں کیں۔
ان ریمارکس پر شوکت صدیقی نے وضاحت کرنا چاہی تو ججز عدالت اٹھ کر چلے گئے۔
شوکت عزیز صدیقی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ انہوں نے تقریر پریشر کو کم کرنے کے لیے کی۔
"بدقسمتی سے میں دسمبر 2015 سے پریشر میں ہوں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ تو مجھے نکالنا چاہتے تھے۔”
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ہم آپ کی تقریر نہیں سننا چاہتے، آپ نے تو نام گنوانے شروع کر دیے۔
شوکت صدیقی نے کہا کہ حلفا کہتا ہوں کہ عدلیہ کچھ قوتوں کے پریشر میں ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی ایک تقریر ہی کافی تھی۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سر پلیز میری بات سن لیں۔ ججز نے شوکت عزیز صدیقی کی بات سننے سے انکار کیا اور بینچ سے اٹھ کر چلے گئے۔