تعلیم کے کاروبار میں معاشرے کو فائدہ نہیں
Reading Time: 4 minutesغفران عباسی
بچپن سے سنتے آئے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں کاش میری یہ کوشش ان دیواروں تک پہنچے جنہیں پہنچانا مقصود ہے ۔خیال کی نوعیت ایسی ہے جس پر لکھنا قبل ازمرگ واویلا مچانے کے مترادف ہے ۔اب چونکہ رہائش سمندر میں ہے تو مگرمچھوں سے بیر لینے جیسا ہے ۔شاید کہنے کو بات رہ جائے لیکن جناب! بوند بوند سے تالاب بھرتا ہے ۔ممکن ہے بھر گیا ہو۔معذرت کے ساتھ ان لوگوں کے نام جن کو مناسب نام نہیں دیا جا سکتا اورجن کے نام جو شاید کسی نام کے قابل نہیں ہیں خواہ ایک مخصوص گروہ کے نام ہوں یا کاروباری اشخاص کے نام، ان پڑھ ہوں یا تعلیم یافتہ ، انتہائی تعلیم یافتہ کاروباریوں کے نام ،علم کو کاروبار سمجھ کرپیسے کمانے والوں کے نام یا ان کے نام جو مقدس لبادے اوڑھ کر مقدس شعبہ اپنا کر کاروبار زندہ رکھے ہوئے ہیں اور یوں اپنی دوکانیں چمکائے بیٹھے ہیں۔
ماضی میں مرحوم اشفاق احمد نے اپنے ایک اظہارِخیال سے ہل چل مچا دی تھی ۔انھوں نے کہا تھا پاکستان کو جتنا نقصان پڑھے لکھے لوگوں نے پہنچایا اتنا تو ان پڑھ لوگوں نے بھی نہیں ۔ہر آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر پڑھے لکھے لوگ کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں اور وہ بھی پاکستان کو۔
کم عمری کی وجہ سے ہمارا سوچ کا دائرہ وسیع نہیں تھا اور بلآخر بات آئی گئی ہو گئی۔ اب گلی گلی کوچہ کوچہ نجی اسکولوں کی بھر مار ہے ۔درس و تدریس بھی جاری ہے اور حالات بھی جوں کے توں ہیں تو اشفاق احمد مرحوم کی بات یاد آتی ہے۔
کیا گلی اورمحلوں میں اسکولوں کی بڑھتی ہو ئی تعداد سے مجھے تشویش لاحق ہے کہ وطنِ عزیز میں تعلیم سے بہترکوئی کاروبار نہیں۔ اگر آپ کہیں بھی ایڈجسٹ نہیں ہو رہے تو درس و تدریس سے منسلک ہو جائیں پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہوگا بلکہ یوں کہہ لیجئے کڑاہی ہی آپ کی ہوگی۔
جب اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں زیرِتعلیم تھا تب سب لوگ ایک ہی سکول میں پڑھنے جایا کرتے تھے۔ اب یہ رواج نہیں رہا۔انگلش میڈیم کا زمانہ آگیا ہے۔سرکاری سکول تو نظر بھی نہیں آتے۔اگر بدقسمتی سے نظر آ جائے تو بچے داخلہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔فی زمانہ سرکاری اسکولوں کے حوالے سے عوام کی رائے بھی انتہائی مایوس کن ہے مشورہ کرنے پر جواب کچھ یوں ملتاہے ۔ اجی چھوڑیے، اب سرکاری سکولوں میں کون پڑھتا ہے ۔ اور پھر ہیں بھی اردو میڈیم جناب۔ پرائیویٹ سکول ہیں نا اور وہ بھی انگلش میڈیم ۔بچہ انگلش سیکھ کر بڑا افسر بنے گا ۔ماں باپ اور ملک کا نا م روشن کرے گا۔
شہرِ علم کے داخلی دروازوں پر قوی ہیکل پہلوان ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔راہ گیروں کی لمبی قطاریں مہنگے ٹکٹ خریدنے میں مصروف ہیں ٹکٹ دکھانے پر آپ کو شہر میں داخلے کی اجازت ملے گی ۔ایک اور بات آپ کے گوش گزار کرتا چلوں ایسے پہلوان قائم شدہ اجارہ داری کی وجہ سے مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔بنا ٹکٹ آپ کو صرف دور کھڑے ہوکر دیکھنے کی اجازت ہے یاد رہے صرف دیکھنے کی۔
سکیورٹی سخت ہونی کی وجہ سے شہر کی دیواریں اتنی اونچی ہیں کہ پھلانگنا تو دور آپ تانکا جھانکی بھی نہیں کرسکتے ۔اگرچالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر بچا کر چوروں کی طرح داخلی دروازے سے گزرنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو مہنگی فیسیں خود بخود آپ کو نکال باہر پھینکیں گی۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے علم پیسوں کا محتاج بن گیا ہے ۔ پیسوں کی عدم موجودگی میں علم کا حصول ناممکن ہے۔ لاکھوں کمانے والے تعلیمی ادارے ایک غریب طالبِ علم کی فیس معاف نہیں کرتے ۔اگر فیس معافی کی درخواست دے دی جائے تو عذر پیش کرتے ہیں کہ کرایہ ، بل، تنخواہیں کیسے دیں گے۔
تعلیم کو کاروبار کے درجے میں لانا معاشرے کے ساتھ زیادتی ہے۔علم پیسوں کا محتاج ہو ہی نہیں سکتا ۔فیس کی بڑھتی ہوئی دوڑ میں مقابلہ بازی ہے ۔سستا روئے بار بار مہنگا روئے ایک بار، جگہ جگہ سننے کو ملتا ہے لیکن علم کا سستا اور مہنگا ہونے والا محاورہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔اب سورج کو ہی لے لیجئے روشنی پھیلاتا ہے یہی اس کا کام ہے قدرت کے قوانین کے مطابق صرف روشنی کرتا ہے مہنگی یا سستی کا تصور نہیں۔پیسے بٹورنے کے لئے نت نئے طریقے نکالے جا چکے ہیں۔مثال کے طور پر یورنیفارم ہماری ہی دوکان سے خریدیں ۔کتابیں فلاں بک شاپ سے خریدیں ۔ سٹیشنری بھی دستیاب ہے۔ اور اگر ان سے بھی پیٹ نہ بھرے تو جرمانے کے نہ ختم ہونے والے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔چھٹی پر اچھے وقتوں میں اساتذہ سزا دیا کرتے ہیں۔جب سے مار نہیں پیار والا رواج چلا ہے چھٹیاں چا ہے جتنی بھی کر لو جرمانہ دو اور چل سو چل۔ بروقت فیس جمع نہ کروانے پر بھی جرمانہ۔ نظم کی خلاف ورزی کرنے پر بھی جرمانہ ۔ حتی کہ ہوم ورک نہ کرنے پر بھی جرمانہ۔ بال نہ کٹوانے پر بھی جرمانہ۔
اگر خدا نخوا ستہ طالبِ علم کسی بھی ناگہانی آفت کی و جہ سے اسکول دیر سے پہنچے تب بھی جرمانہ۔اسکول کی عمارت ،فرنیچر یا کسی بھی چیز کو نقصان پہنچانے پر بھی جرمانہ۔
اپنے دور میں ایک دن کوڑا دان پر پاؤں رکھنے کی وجہ سے پوری جماعت سزا کی حقدار ٹھہری تھی۔ان دنوں ڈسٹ بین (Dust bin) والا کلچر نہیں ہوتا تھا۔گھی کے پرانے ڈبوں کو رنگ کر کے اس پر انگلش میں ’’ یوزمی ‘‘(Use me)لکھا جاتا تھا۔سخت سردی کے اس موسم میں دس سوٹیاں فی کس کے حساب سے حصہ تقسیم کیا گیا تھا۔غلطی انفرادی تھی لیکن سزا اجتماعی ۔
فرق اتنا ہے صاحب تب اساتذہ کا روباری نہیں تھے ۔علم بکاؤ مال نہیں تھا ۔ان دنوں علم کی سیل نہیں لگتی تھی۔ جب پچاس فیصد کی حیرت انگیز کمی نہیں ہوتی تھی ۔ تعلیم اور ترببیت دونوں لازم و ملزوم تھے ۔ علم ،ادب ،احساس عزت و تکریم عام ہوا کرتی تھی ۔
خدارا تعلیم جیسے معتبر اور مقدس شعبے کو عام کاروبار جیسا درجہ نہ دیں۔ تعلیم کو بازار کی جنس بنانے سے گریز کیجیے۔ ہر تعلیمی ادارہ ہر کلاس میں پانچ سے سات غریب اور نادار طلبا کو مفت تعلیم فراہم کرے تو حالات دیدنی ہوں گے۔ تعلیم تک ہر ایک کی رسائی ہوگی تو کل یہی لوگ مفت پڑھانے پر راضی ہوں گے۔