لازوال فنکار دلیپ کمار کی زندگی اور فلموں میں منفرد کیا تھا؟
Reading Time: 9 minutesذوالفقار علی زلفی
ہندی سینما کے ایک بہت بڑے فن کار امیتابھ بچن کا ماننا ہے "ہندی سینما کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ـ اول؛ دلیپ کمار سے پہلے اور دوم؛ دلیپ کمار کے بعد” ـ ہندی سینما میں اداکاری کی کیفیت اور ماہیت کی تاریخ پر گر نگاہ دوڑائی جائے تو امیتابھ بچن کی بات سو فیصد درست لگتی ہے ـ
تیس کی دہائی کے وسط میں جب ہندی سینما نے بولنا سیکھا تو اس پر تھیٹر کے اثرات حاوی تھے ـ تھیٹر میں چوں کہ ناظرین کے لیے اداکار کے چہرے کے تاثرات کا بغور مشاہدہ ناممکن تھا اس لیے تھیٹر اداکار چہرے کے تاثرات سے زیادہ لہجے کی درستگی پر توجہ دیتے تھے ـ یہی روایت فلموں میں بھی در آئی ـ اشوک کمار غالباً وہ پہلے اداکار تھے جنہوں نے اس روایت کو بدلنے کی کوشش کی تاہم وہ اتنے موثر ثابت نہ ہوسکے کہ پوری فلمی روایت بدل دیں ـ یہ سہرا دلیپ کمار کے سر بندھتا ہے ـ دلیپ کمار نے چہرے ، آنکھوں اور بدن کے ذریعے کردار کو پیش کرنے کی جو طرح ڈالی اس نے ہندی سینما میں اداکاری کا شعبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا ـ
دلیپ کمار اس بدلاؤ کے اہم ترین محرک ضرور ہیں تاہم انہیں موجد قرار دینا شاید درست نہ ہو ـ چالیس کی دہائی کے اواخر اور پچاس کی دہائی کے وسط تک ان کی اداکاری پر اشوک کمار اور امریکہ کے عظیم فن کار مارلن برانڈو کے اثرات واضح ہیں ـ خاص طور پر مارلن برانڈو کے ـ ان کے ساتھی اداکاروں میں راج کپور، چارلی چیپلن اور دیو آنند، گریگوری پیک سے غذا لیتے تھے اور یہ سلسلہ ان کی پوری فنی زندگی میں برقرار رہا تاہم دلیپ کمار نے جلد ہی اپنا الگ راستہ چُن کر منفرد نظر آنے کی کوشش کی ـ یہ دلیپ کمار کی انفرادیت ہے کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فن کاروں نے ان کے ہی انداز کو اپنایا ـ جیسے راجندر کمار، منوج کمار، امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان ـ گویا دلیپ کمار نسل در نسل تازہ رہے ـ
ان کی انفرادیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ہدایتکار ڈیوڈ لین (David Lean) نے اپنی شہرہ آفاق فلم "لارنس آف عربیہ” میں شریف علی کے کردار کیلئے سب سے پہلے دلیپ کمار کو ہی منتخب کیا مگر بدقسمتی سے انہوں نے معذرت کرلی ان کی معذرت کے بعد یہ کردار مصری اداکار عمر شریف نے ادا کیا اگر دلیپ کمار معذرت نہ کرتے تو ان کی امر فلموں میں یہ ایک بہترین اضافہ ہوتا ـ
ان کا ایک انکار فلم "سنگم” (1964) کو بھی سہنا پڑا ـ راج کپور فلم کے دوسرے لیڈ رول کیلئے دلیپ کمار کو لینا چاہتے تھے مگر ان کے انکار کے بعد انہیں وہ کردار راجندرکمار کو دینا پڑا اگر دلیپ کمار انکار نہ کرتے تو فلم "انداز” کے بعد یہ دوسری خوبصورت یکجائی ہوتی ـ انہیں خوف لاحق رہا کہ راج کپور ان کے کردار کو اپنی نسبت پھیکا بنانے کی کوشش کریں گے ـ راج نے ان کا یہ خوف دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی تاہم وہ نہ مانے ـ اسی طرح انہوں نے محبوب خان کی کلاسیک "مدر انڈیا” کو بھی انکار کیا کیونکہ وہ اپنی ہیروئن نرگس کا بیٹا نہیں بننا چاہتے تھے جو بعد ازیں سنیل دت بنے ـ ان کے اس فیصلے کو جہاں بعض ناقدین نے اخلاقی بنیادوں پر سراہا وہاں سنجیدہ فلمی ناقدین ان کے اس فیصلے کو تاریخی غلطی قرار دیتے رہے ہیں ـ میرا خیال ہے پچاس کی دہائی کے اوائل سے ہی وہ اپنی انفرادیت کے معاملے میں حد درجہ حساس ہوچکے تھے ـ وہ کسی بھی ایسی فلم میں کام کرنے سے ہچکچاتے تھے جہاں ساتھی اداکار کا کردار ان سے بہتر یا ان کے مساوی ہو ـ
وہ ہندی سینما کی خاتونِ اول اور بمبے ٹاکیز کی شریک مالکن دیویکا رانی کے توسط سے فلمی دنیا کا حصہ بنے ـ دیویکا رانی کو یوسف خان کا نام غیر فلمی لگتا تھا اس لیے انہوں نے کوئی اچھا سا "فلمی” نام رکھنے کی تجویز دی ـ دلیپ کمار نے اپنا فلمی نام "جہانگیر خان” چُنا ـ دیویکا رانی نے اس نام کو فوراً مسترد کردیا ـ دیویکا رانی نے ان کے لیے "واسو دیو” کا نام پسند کیا تاہم وہ نہ مانے ـ ایسے میں معروف مصنف بھگوتی چرن ورما نے "دلیپ کمار” رکھنے کا مشورہ دیا ـ دیویکا رانی نے بھی اس نام کی حمایت کی یوں ناچار یوسف خان اعوان ؛ دلیپ کمار بن گئے ـ
عموماً نام تبدیلی کی اس روایت کو "فلمی نام” رکھنے سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن ایسا قطعاً نہیں تھا ـ ہندو قوم پرست سینما میں مسلم اکثریت سے خائف تھے ـ وہ سنجیدگی سے سمجھتے تھے ہندو فلمی پیشکش پر مسلم کنٹرول ہندو ثقافت کے لیے مضر ہے ـ اس حوالے سے انہوں نے غیرسرکاری سینسر بورڈ بھی تشکیل دیا تھا ـ ہندو قوم پرستوں کے دباؤ کی وجہ سے مسلم فن کار "فلمی نام” رکھنے کی آڑ میں اپنی مسلم شناخت چھپانے پر مجبور تھے ـ دلیپ کمار اس دباؤ سے واقف نہ تھے اس لیے انہوں نے "جہانگیر خان” کو پسند کیا لیکن گھاگ دیویکا رانی اچھی طرح سمجھتی تھی مغل فرمانروا سے مستعار لیا نام بمبے ٹاکیز کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ـ اس سیاسی پسِ منظر کی وجہ سے دلیپ کمار کی تخلیق ہوئی ـ
بمبے ٹاکیز کے بینر تلے ان کی تین فلمیں آئیں ـ "جوار بھاٹا” (1944) , "پرتیما” (1945) اور "ملن” (1947) ـ یہ تینوں فلمیں بمبے ٹاکیز کے اورینٹلسٹ سوچ کے پسِ منظر میں بنائی گئی ہیں ـ اورینٹلسٹ دانشورانہ اسکرین پلے اور دلیپ کمار کی کمزور اداکاری کے سبب یہ فلمیں کامیاب نہ ہوسکیں البتہ "ملن” میں ان کی اداکاری سابقہ دو فلموں کی نسبت بہتر ہے ـ 1947 میں ہی ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے انہیں نورجہان کے مقابل فلم "جگنو” میں پیش کیا ـ "جگنو” ایک المناک رومانٹک ڈرامہ ہے ـ اس فلم میں دلیپ کمار نے ایک کھلنڈرے عاشق اور پھر چوٹ کھائے اداس انسان کی زبردست ترجمانی کی ہے ـ فرقہ وارانہ سیاست کے درمیان یہ پُراثر محبت کی داستان نہ صرف کامیاب رہی بلکہ اس نے برصغیر کو ایک ایسے فن کار سے بھی نوازا جس نے آگے چل کر اداکاری کے شعبے میں انقلاب بپا کردیا ـ
آزادی کے بعد ان کی قابلِ ذکر فلم "شہید” (1948) کو قرار دیا جاسکتا ہے ـ گو کہ "شہید” کوئی شہکار نہیں ہے لیکن یہ اس زمانے کے سیاسی حالات اور فلم بینوں کے جذبات کی کامل ترجمانی کرتی ہے ـ فلم میں ان کا کردار نوآبادیاتی عدالت کے ایک ایسے جج کے بیٹے کا تھا جو نوآبادیاتی نظام کے خلاف لڑتے لڑتے اپنے ہی جج والد سے موت کی سزا پاتا ہے ـ
"جگنو” اور "شہید” کی کامیابی کے باوجود دلیپ کمار کا شمار دوسرے درجے کے اداکاروں میں ہوتا تھا ـ جس قسم کی اداکاری وہ کرتے تھے اشوک کمار کے علاوہ دیگر اداکاروں کے بس کا روگ ہی نہ تھا ـ اس کے باوجود وہ کوئی اہم مقام حاصل نہیں کرپائے تھے ـ اسی اثنا اداکارہ کامنی کوشل کی جوڑی میں ان کی "شبنم” (1949) ریلیز ہوئی ـ اس فلم میں ان کا کردار ایک چُلبلے دیہاتی کا تھا ـ یہ بھی ایک کامیاب فلم رہی ـ "شبنم” اس لحاظ سے بھی یادگار ہے کہ اس فلم میں ان کا نام "منوج” تھا جس سے متاثر ہوکر اسی دوران ایبٹ آباد سے ہجرت کرکے آنے والے ایک دوسرے ہندکو فن کار نے اپنا نام "منوج کمار” رکھا ـ 1949 کا سال البتہ دلیپ کمار کے لیے خوش بخت ثابت ہوا ـ اسی سال ان کی دوسری فلم نے کامیابی اور شہرت کا وہ درجہ پایا جو اس سے پہلے انہیں نہیں ملا تھا ـ یہ تھی عظیم ہدایت کار محبوب خان کی ٹرائنگل لو اسٹوری "انداز” ـ "انداز” میں ان کے مقابل راج کپور اور نرگس تھے ـ دلیپ کمار نے اس فلم میں ناقابلِ فراموش اداکاری کے جوہر دکھائے ـ اس فلم نے ان کو صفِ اول کا اداکار بنا دیا ـ ایک ایسا اداکار جو ایک ہی فلم میں طربیہ اور المیہ اداکاری کے خوب صورت جوہر دکھا سکتا ہے ـ ناکام محبت کے جنازے پر سوگوار دلیپ کمار نے فلم بینوں کی روح کو چھو لیا ـ یہاں سے جنم ہوا اس فن کار کا جس نے ہندی سینما کو معتبر بنا دیا ـ
پچاس کی پوری دہائی میں انہوں نے ایک سے ایک ایسی فلمیں پیش کیں جنہیں آج بھی ہندی سینما کی بہترین تخلیقات میں گنا جاسکتا ہے ـ
بچپن کی محبت کا متلاشی اندھا گلوکار جو بینائی پانے کے بعد پچھتاتا ہے "دیدار” (1951) ـ
نکما شرابی نوجوان جس کو احساسِ زیاں بھی نہیں "داغ” (1952) ـ
دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کا شکار فرد "فٹ پاتھ” (1953)
مثبت و منفی جذبات کا امتزاج لیے ایسا انسان جو ایک کمزور لڑکی کا ریپ کر دیتا ہے "امر” (1954)
جاگیردار خاندان کا انا پرست عاشق جو انا کی آگ میں جل کر بھسم ہوجاتا ہے "دیوداس” (1955)
ناہموار اور مسلط کردہ ترقی کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے والا باغی "نیا دور” (1957)
اسی طرح عقیدہ آواگون پر "مدھومتی” (1958) اور محلاتی سازشوں کا شکار شہزادہ "کوہِ نور” (1960)
مانا جاتا ہے مسلسل المیہ اداکاری کرنے کی وجہ سے وہ نفسیاتی عارضے کا شکار ہوگئے تھے ـ انہوں نے لندن جاکر اپنا نفسیاتی معائنہ بھی کروایا ـ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مدھو بالا کے ساتھ ان کی ناکام محبت نے بھی ان کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے تھے ـ وہ شاید ایک سراپائے محبت عورت کی الفت کو مردانہ غرور سے ٹھوکر مارنے کے بعد احساسِ جرم کا شکار ہوگئے تھے ـ انہوں نے مدھو بالا کو سرِعام تھپڑ جَڑ دیا تھا !!!!!!! ـ
تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
محبت کی ناکامی کے باوجود ان کے فن کا سورج ساٹھ کی دہائی میں بھی چمکتا رہا ـ بالخصوص ہدایت کار کے آصف کی عظیم فلم "مغلِ اعظم” میں شہزادہ سلیم کا کردار ـ اس فلم میں ہر چند ان کی اداکاری پرتھوی راج کپور اور مدھوبالا کی نسبت تھوڑی پھیکی سی محسوس ہوتی ہے تاہم اگر تقابلی جائزے کو نظر انداز کیا جائے تو شہزادہ سلیم کے کردار کو ہندی سینما کے تاریخی ژنر کی فلموں کا بہترین کردار قرار دیا جاسکتا ہے ـ
ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں ان کی ایک اور فلم بھی دھماکہ خیز ثابت ہوئی ـ یہ تھی ہدایت کار نیتن بوس کی "گنگا جمنا” (1961) ـ اس فلم میں ان کا کردار ایک گنوار دیہاتی کا تھا جو استحصالی جاگیردارانہ نظام کا شکار بن کر ڈاکو بن جاتا ہے ـ اس فلم کی تھیم بظاہر ہدایت کار محبوب خان کی "مدر انڈیا” سے متاثر ہے تاہم سیمیاتی تجزیے کی کسوٹی پر پرکھنے سے پتہ چلتا ہے یہ چالیس کی دہائی کے اواخر میں چلنے والی تلنگانہ کسان تحریک کی فلمی شکل ہے ـ اس فلم میں دلیپ کمار نے مشرقی ہندوستان کے لب و لہجے کی حیران کن حد تک کامیاب اداکاری کی ہے ـ
ساٹھ کی دہائی میں ان کی ایک اور اہم فلم بلاشبہ "رام اور شیام” (1967) ہے ـ اس فلم میں انہوں نے ڈبل رول ادا کیا ہے ـ اس فلم کی کم از کم تین ری میک بن چکی ہیں ـ جیسے ہیمامالینی کی "سیتا اور گیتا” (1972) , سری دیوی کی "چالباز” (1989) اور انیل کپور کی "کشن کنہیا” (1990) ـ ساٹھ کی دہائی میں ان کی ایک اور فلم "آدمی” (1968) بھی خوب صورتی کا مرقع ہے ـ اس فلم میں وہ دوستوفسکی کے کردار راسکولینکوف (ناول: جرم و سزا) کی مانند نظر آتے ہیں ـ
70 کی دہائی میں راجیش کھنہ کے رومانس اور امیتابھ بچن کے اینگری ینگ مین کرداروں کے ساتھ ساتھ اندرا گاندھی پالیسی کے باعث بدلتے سیاسی و سماجی حالات نے بظاہر دلیپ کمار کو قصہِ پارینہ بنا دیا ـ وہ فلموں سے دور ہوگئے ـ ان کے ہم عصر راج کپور اور دیو آنند نے بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے ہدایت کاری کا شعبہ مضبوطی سے تھامے رکھا لیکن وہ اس شعبے کے شہسوار نہ تھے اس لیے ناچار فلمی دنیا تیاگنے پر مجبور ہوگئے ـ
80 کی دہائی میں ان کے سب سے بڑے پرستار ہدایت کار و اداکار منوج کمار انہیں دوبارہ فلمی دنیا میں لائے ـ انہوں نے دلیپ کمار کو اپنی فلم "کرانتی” (1981) کا حصہ بنایا ـ یہ ایک طویل اور دماغ کو بوجھل کردینے والا تجربہ تھا اس کے باوجود باکس آفس پر یہ ملٹی کاسٹ فلم ہٹ ہوگئی ـ "کرانتی” سے ان کی فلمی زندگی کی دوسری اننگ شروع ہوگئی ـ
80 کی دہائی میں ان کی کم از کم تین فلموں کو شاندار کہا جاسکتا ہے ـ
ہدایت کار رمیش سپی کی "شکتی” (1983) ـ اس میں انہوں نے ایک قانون پسند پولیس آفیسر اور ایک اصول پسند باپ کا کردار ادا کیا جبکہ ان کے مقابل امیتابھ بچن تھے جنہوں نے ایک انارکسٹ بیٹے کا کردار نبھایا ـ فلم میں گوکہ دونوں کی اداکاری اعلی رہی مگر میں سمجھتا ہوں بعض سیکوئنس میں انہوں نے امیتابھ بچن کو پچھاڑ دیا ہے ـ
دوسری یش چوپڑا کی ہدایت میں بننے والی فلم "مشعل” (1984) ـ اس میں وہ ایک مارکسسٹ صحافی کے کردار میں ہیں ـ اس فلم کے ایک سین نے تو کلاسیک کا درجہ حاصل کرلیا جب برسات کی رات , سنسان سڑک پر , اپنی مرتی بیوی کی زندگی بچانے کیلئے دلیپ کمار مدد کی فریاد کرتے ہیں ـ اس سین میں ان کا انداز , ڈائیلاگ ڈلیوری , جسم کی حرکت الغرض ہر چیز ناقابلِ فراموش ہےـ
تیسری فلم وطن دوستی پر مبنی "کرما” (1986) ہے جس کے ہدایت کار سبھاش گئی ہیں ـ اس فلم میں جیلر وشوا پرتاب سنگھ کے کردار میں بھی ان کا فن سر چڑھ کر بولتا ہے ـ
90 کی دہائی میں ان کی صرف تین فلمیں آئیں ـ ان میں سے بھی صرف 1991 کی "سوداگر” دیکھنے کے قابل ہے جس میں ان کے مقابل ہندی سینما کے دوسرے کمار "راج کمار” تھے ـ ان دونوں کی دوستی اور دشمنی سے پیدا ہونے والے ڈائیلاگ ہی اس فلم کی جان ہیں دوسری صورت میں یہ بھی بہترین فلم نہیں کہی جاسکتی ـ ان کی آخری فلم 1998 کی ” قلعہ” ثابت ہوئی اور افسوس کہ یہ بھی کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ـ
دلیپ کمار آج جس مقام پر فائز ہیں وہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا اپنے چوّن سالہ فلمی کیریئر میں انہوں نے سینما پر ایک بادشاہ کی طرح راج کیا , سینکڑوں ایوارڈ سمیٹے , برصغیر میں ان کا نام بنا کسی تعصب کے احترام اور محبت سے لیا جاتا ہے ـ
بظاہر برصغیر کے یہ عظیم فن کار 07 جولائی 2021 کی صبح اس دنیا سے کوچ کر گئے مگر فن کہاں مرتا ہے ـ دلیپ کمار ایک فن کار کی صورت ہمیشہ زندہ رہیں گے ـ
. بشکریہ ذوالفقار علی زلفی فیس بک