حرص کے بے ضمیر بندے
Reading Time: 2 minutesاشفاق احمد کہتے ہیں،”فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں بلکہ احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مرجائیں تو صبر آجاتا ہے مگر احساس/ضمیر مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے“
بات چاہے سیاسی لوگوں کی کی جائے یا عام شہریوں کی، صورتحال دونوں جانب گھمبیر ہے۔ سیاسی لوگ ضمیر کی آواز سننے کو تیار ہی نہیں، ہر روز ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتاہے۔ ایک دوسرے کے دامن کو گالیوں اور تہمتوں سے داغدار کیاجاتا ہے۔ بات نکلی ہے تو اب ذرا دور تک جائے گی.
پاکستان کی پارلیمنٹ میں پارلیمنٹرین ممبران کی گفتگو سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی گلی محلے کے دو گروپوں کے درمیان کسی بات پر گالیوں کا مقابلہ ہورہا ہو۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ لوگ پاکستان کے عوام کی نمائندگی کررہے ہیں۔
حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے۔
اصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں نہ تھا نہ ہوسکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم
جب بھی کوئی سیاست دان کسی ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جاتا ہے تو یہی ایک فقرہ دہرایا جاتا ہے”بے ضمیر لوگ پہچانے گئے“ . اس جملے کا زیادہ استعمال ہم نے مشرف دور میں سنا جس وقت قاف لیگ پروان چڑھ رہی تھی۔
دراصل ضمیر کے مردہ لوگ صرف الزام تراشیاں کر سکتے ہیں۔ جہاں بارود اپنے ہاتھوں سے بوکر خون کی آبیاری کی جاتی ہو۔ جہاں مادہ پرستی کے سامنے انسانیت ہار جاتی ہو۔ جہاں پر مجبوریاں ماں کی مامتا کو نگل جاتی ہوں۔ حکمران خود کو دنیا میں خدا سمجھنا شروع کردیں۔جہاں مزدور کو اس کی محنت کے مطابق مزدوری نہ دی جائے۔ جس معاشرے میں ”بےحسی ہر سو ناچتی ہے اور خود غرضی رقص کرتی ہے“ وہاں بھلائی اور نیکی کی امید کس سے کی جاسکتی ہے جن کے ضمیر زندہ ہوتے ہوئے بھی مر چکے ہوں۔
انتخابات میں اربوں روپے کا کاروبار، ضمیروں کا کھیل۔ جہاں پر سوداگر ضمیر کا سودا کرتے ہوں۔جہاں خیر اور ثواب لاشوں کی صورت سامنے پڑے ہوں۔جہاں پر شعور فروشی کا کاروبار عروج پر ہو، وہاں بھلا کیسے بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے۔
عوام کی بات کی جائے تو ہم بطور شہری بھی سیاست دانوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ جھوٹ، ملاوٹ، حق تلفی، سود، حد سے زیادہ منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور اس قسم کی بے شمار چیزیں شامل ہیں جن میں ہم آگے آگے پائے جاتے ہیں۔
جب معاشرے کی اکثریت بے ضمیر ہوجائے، پیسے کی حرص ہو تو واقعی ایسے معاشرے میں فاتحہ لوگوں کے مرنے پر نہیں بلکہ ضمیر کے مرنے پر پڑھنی چاہیے۔