اہم خبریں پاکستان24 عالمی خبریں متفرق خبریں

امریکی ڈالروں نے طالبان کو کیسے بدلا؟

اگست 19, 2021 2 min

امریکی ڈالروں نے طالبان کو کیسے بدلا؟

Reading Time: 2 minutes

افغانستان پر طالبان جنگجوؤں کے قبضے کے بعد پوری دنیا میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا طالبان بدل گئے؟ اور یہ کہ طالبان کتنے بدلے ہیں؟

کابل پر کنٹرول سنبھالنے کے گزشتہ چار دنوں میں طالبان رہنماؤں اور ترجمانوں کے بیانات سے بظاہر لگتا ہے کہ یہ وہ جنگجو نہیں جو سنہ 1996 میں اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔

مبصرین کے مطابق طالبان کے محتاط طرز عمل یا موجودہ لچکدار رویے کے پیچھے امریکی ڈالرز ہیں جو اس وقت عالمی اداروں کے کنٹرول میں ہیں اور جن کے ذریعے مستقبل میں ملک کا نظام چلایا جانا ہے.

افغانستان کے مرکزی بینک کے پاس اس وقت کُل خزانہ 9 ارب ڈالر ہے تاہم یہ تمام رقم امریکہ میں پڑی ہے اور حالیہ بعض بیانات سے واشنگٹن نےواضح پیغام دیا ہے کہ خزانہ طالبان کو آسانی سے واپس نہیں کیا جائے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ 9 ارب ڈالر واپس لینے کے لیے طالبان کو کئی چیزوں پر سمجھوتے کرنا پڑیں گے اور ان کی تمام طبقات کو حکومت میں شامل کرنے کی مشاورت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اففانستان میں لاکھوں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی سینٹرل بینک کو امریکہ میں پڑے ڈالرز درکار ہوں گے اور اگر طالبان کی سفارتکاری ناکام ہوئی یا ان کے لچکدار رویے میں تناؤ آیا تو ایک ماہ بعد صرف کابل شہر میں آباد 50 لاکھ لوگوں کو کھانے پینے کے لالے پڑ جائیں گے۔

دوسری جانب طالبان کو افغانستان کی جانب سے تیل اور بجلی کی مد میں بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے بھی ڈالرز درکار ہوں گے۔

خیال رہے کہ افغانستان میں بجلی کی زیادہ تر فراہمی ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان سے بچھائی گئی لائنوں سے کی جاتی ہے جس کے لیے ان ممالک کو کروڑوں ڈالرز ادا کیے جاتے ہیں۔

طالبان نے جس افغانستان پر قبضہ کیا ہے اس کو آئی ایم ایف قرض دیتا ہے اور اس کو کروڑوں ڈالر کی اقساط بھی واپس کرنا ہیں۔

مبصرین کے مطابق صرف عالمی سپورٹ سے ہی طالبان دنیا میں افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کر کے واپس لے سکتے ہیں اور اس کے لیے ان کو کئی ایسے مطالبات ماننے پڑیں گے جو بین الاقوامی برادری کی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اب فوجی حکمت عملی کے بجائے مالی پابندیوں کے ذریعے طالبان کے بازو مروڑے گا اور جنگجوؤں کے پاس اس کے مقابلے کے لیے صرف سفارت کاری کا ہی ہتھیار موجود ہوگا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے