ازخودنوٹس کا اختیار: طریقہ کار وضع نہ کیا گیا تو نظام نہیں چل سکتا: عدالت
Reading Time: 2 minutesمنگل کو سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کیس میں ازخود نوٹس کے اختیار کی وضاحت کے معاملے پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالتی حکم پر اپنی رائے دینے سے پہلے کچھ وضاحت دینا چاہتا ہوں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایک خط لکھا ہے جس میں موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے ایک بینچ کی مانیٹرنگ دوسرا بینچ نہیں کر سکتا۔
اٹارنی جنرل کے مطابق خط میں کہا گیا کہ ایک بینچ دوسرے بینچ کی کارروائی کاجائزہ بھی نہیں لے سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1997 میں ایک بینچ کو دوسرے بینچ کے خلاف احکامات دیتے دیکھا ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ عمل دوبارہ نہیں دوہرایا جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ عام طور پر ایک ہی مقدمہ مختلف بینچز کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہوتا رہتا ہے، ضرورت کے پیش نظر ایک بینچ دوسرے بینچ کے احکامات میں ترمیم، تبدیلی بھی کرتا رہتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے بینچ کے احکامات پر اپنا حکم نہیں دے سکتا،
میرے خیال سے یہ مانیٹرنگ بینچ نہیں ہے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ سب سے اہم سپریم کورٹ کا وقار اور اس کا اتحاد ہے۔
قائمقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارا سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے حکم میں مداخلت کا ارادہ نہیں، دو رکنی بینچ کے حکم سے ایک مشکل سامنے آئی جس کا تدارک ضروری ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈیڑھ سال میں فل کورٹ کی سربراہی کی ہے، فل کورٹ بیٹھ کر اندازہ ہوا کہ عدالتی کام بالکل رک جاتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اگر کوئی مناسب وجہ نہ ہوئی تو یہ کیس دوبارہ دو رکنی بینچ کے سامنے چلا جائے گا، ادارے پر اعتماد نہ کرنا بھی اس مقدمے کا ایک اہم پہلو ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چیزوں کو تباہ کرنا آسان ہے لیکن بنتی بہت مشکل سے ہیں، اگر کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا تو نظام نہیں چل سکتا۔