’جنگ کب ختم کریں گے‘، جی 20 میں روسی وزیر خارجہ سے سوال
Reading Time: 2 minutesیوکرین پر روس کے حملے کے تناظر میں جی 20 ممالک کے وزرائے خارجہ کے انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقدہ اجلاس میں ماسکو کے سفارتکاروں کو سخت تنقید کا سامنا رہا۔
یوکرین پر روسی حملے کے سخت ناقدین نے ماسکو کے وزیر خارجہ اور سفاتکاروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔
یہ فروری میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس رہا جس میں روسی سفارت بھی شریک ہوئے ہیں۔
روئٹر نیوز ایجنسی کے مطابق اجلاس کا محور یوکرین جنگ کے باعث عالمی معشیت پر پڑنے والے اثرات تھا۔
اجلاس میں یورپ کے اہم ممالک کے علاوہ جاپان کے سفارت کار بھی شریک ہوئے۔
اجلاس کے آغاز میں جب روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف اپنے انڈونیشین ہم منصب رینٹو مرسودی سے ہاتھ ملا رہے تھے تو بعض حکام کی جانب سے کہا گیا:
’جنگ کب ختم کرو گے، آخر تم جنگ کیوں نہیں روک رہے۔‘
اجلاس سے ایک روز قبل انڈونیشین وزیر خارجہ رینٹو نے کہا تھا کہ جی سیون نے انہیں اطلاع دی تھی کہ جمعرات کو ہونے والے ویلکم ڈنر میں لاروف کی موجودگی میں وہ شریک نہیں ہو سکیں گے۔
اس اقدام کو میزبان ملک نے صرف سمجھا ہی نہیں بلکہ عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
رینٹو نے اجلاس کا آغاز ان الفاظ سے کیا ’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو جنگ کو ختم کرائیں اور جتنے بھی اختلافات ہیں ان کو مذاکرت کی میز پر حل کریں، جنگ کے میدان میں نہیں۔‘
خیال رہے روس نے رواں سال 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سے مسلسل لڑائی جاری ہے، روس کی جانب سے اہم علاقوں پر قبضے کا دعوٰی کیا جاتا ہے جبکہ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ روس کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ہتھیار ڈالنے تک جنگ جاری رہے گی۔
دوسری جانب اس جنگ نے دنیا کے بیشتر ممالک کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے، امریکہ اور مغربی ممالک کھل کر یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں اور جنگ کے لیے امدادی سامان بھی دے رہے ہیں جبکہ یورپی یونین نے یوکرین کو رکنیت کے لیے خصوصی سٹیٹس بھی دے دیا ہے۔
یوکرین اور روس بڑے پیمانے پر اناج پیدا اور برآمد کرتے ہیں اس لیے جنگ کی وجہ سے وہاں پیداوار متاثر ہوئی ہے جس سے خوراک کے بحران کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں.
پابندیوں کے باعث روسی تیل کئی ممالک تک نہیں پہنچ رہا جس کے باعث عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔