جہاں قانون کی حکمرانی نہیں، وہ کسی کا وطن نہیں
Reading Time: 4 minutesویک اینڈ نائٹ پر اوبر چلارہا تھا کہ واشنگٹن کے ایک کلب سے سواری اٹھائی۔ رات کے دو بج رہے تھے جو کلب بند ہونے کا وقت تھا اور باہر بہت سے نوجوان کھڑے تھے۔ ایچ اسٹریٹ تھورا سا بدنام علاقہ ہے۔ نہ بھی ہو تو ہر کلب کے سامنے ایک دو پولیس کی گاڑیاں موجود رہتی ہیں۔
میری رائیڈر دو سیاہ فام لڑکیاں تھیں جو سواحلی بول رہی ہیں۔ ان میں ایک نسبتا زیادہ نشے میں تھی۔ گاڑی چلتے ہی اس نے چلا کر کہا، اسٹاپ، اسٹاپ اور دروازہ کھول دیا۔
میں نے بیک ویو مرر میں دیکھا، سڑک سنسان تھی۔ ہیزرڈ آن کرکے گاڑی روکی تو لڑکی نے اترنے کی کوشش کی۔ دوسری نے اس کا ہاتھ پکڑ کے روکنا چاہا۔ تھوڑی کشمکش ہوئی۔ پھر وہ لڑکی ہاتھ چھڑا کے تیزی سے نکلی اور دوسری اس کے پیچھے بھاگی۔
اچانک پیچھے سے پولیس کی گاڑی آئی۔ جیسا کہ ان کا دستور ہے، پہلے تیز روشنی ماری، پھر سائرن بجایا۔ ایک پولیس افسر نکل کر چند لمحے معائنہ کرتا رہا۔ میں گاڑی میں بیٹھا رہا۔ یہاں کسی گاڑی کو روکا جائے اور ڈرائیور خود باہر نکل آئے تو پولیس اسے گولی مار سکتی ہے۔ ڈرائیوروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ روکا جائے تو دونوں ہاتھ اسٹیرنگ وہیل پر رکھ کر بیٹھے رہیں۔
خیر، پولیس افسر بکتا جھکتا آیا۔ غصے سے کہا، بیچ سڑک پر گاڑی روک کے کھڑے ہو۔ یہ کیا حرکت ہے؟ کوئی حادثہ ہوجاتا تو؟ میں نے کہا، میں اوبر ڈرائیور ہوں۔ یہ دیکھو، فون پر ایپ لگی ہے۔ ایک لڑکی بیچ سڑک پر دروازہ کھول کر بھاگ گئی۔ میں کیا کرتا؟ گاڑی نہ روکتا تو اس کی جان خطرے میں پڑجاتی۔
پولیس افسر نے دیکھا کہ میں کار سے نہیں نکلا اور پیچھے کا دروازہ بدستور کھلا ہوا ہے۔ اس نے دروازہ بند کیا اور مجھ سے کہا، اس رائیڈ کو کینسل کردو۔ میں نے ہدایت کی تعمیل کی۔ اس بار اس نے نرم لہجے میں کہا، اس لڑکی کو دفع کرو، یہاں سے بھاگو۔ یا ایک طرف گاڑی کھڑی کرکے اگلی سواری کا انتظار کرو۔ میں شکریہ ادا کرکے روانہ ہوگیا۔
صبح اٹھ کر قابل احترام ابصار عالم کا کالم پڑھا۔ آپ نے بھی دیکھ لیا ہوگا۔ نہیں تو ڈھونڈ کے پڑھیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مارچ 2020 میں ان کا بیٹا پی ایس ایل کا میچ دیکھنے گیا تھا۔ اسٹیڈیم پہنچ کر اس نے کزن کو فون کرکے اپنی لوکیشن بتائی تاکہ وہ ایک جگہ جمع ہوجائیں۔ اسی دن اتفاق سے جنرل باجوہ کو بھی میچ دیکھنے آنا تھا، اگرچہ ان کی آمد میں دو گھنٹے باقی تھے۔ فوج اور پولیس کے ہزاروں جوان تعینات تھے۔ انھوں نے نوجوان کو فون کرتے ہوئے پکڑ لیا اور پوچھا کہ کون ہو؟ اس نے بتایا کہ ابصار عالم کا بیٹا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ آرمی چیف نے آنا ہے اور تم نے وی آئی پی موومنٹ کی معلومات کسی کو دی ہے۔ انھوں نے اس پر وہاں اور تھانے لے جاکر اس قدر تشدد کیا کہ وہ رہائی کے بعد نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہوگیا۔ ایک تعلیمی سال ضائع ہوا۔ تین سال ہوچکے ہیں، اس کا علاج جاری ہے۔
اب میں امریکا اور پاکستان کا موازنہ کروں گا تو آپ مجھے جارج فلائیڈ اور اس جیسے دوسرے نام یاد دلائیں گے۔
بے شک یہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں اور میں نے ان کا ڈیٹا دیکھا ہے۔ ایسے کئی واقعات پر بعض جذباتی فلمیں بھی دیکھی ہیں۔ ان میں تین نکات قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ اکثر یہ واقعات سیاہ فام افراد کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تعصب کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ، مثلا اسپینش بولنے والوں کے ساتھ ایسے واقعات کیوں نہیں ہوتے؟ بہرحال ان واقعات پر ملک گیر احتجاج ہوتا ہے اور میڈیا نمایاں کوریج دیتا ہے۔
دوسرا نکتہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بھاری ہاتھ سے نمٹنے کا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پولیس اصلاحات مسلسل جاری رہتی ہیں۔ یاد رہے کہ امریکا میں ہر شہر اور ہر کاونٹی کا اپنا الگ محکمہ پولیس ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرح صوبے یا ریاست کا مرکزی نظام نہیں۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جب کوئی واقعہ ہوتا ہے، چاہے پولیس نے حقیقی مقابلے میں مجرم کو مارا ہو، اس میں ملوث پولیس اہلکاروں کو فورا کام سے روک دیا جاتا ہے۔ واقعے کی جانچ کی جاتی ہے۔ کچھ غلط ثابت ہوجائے تو اہلکار برطرف کردیا جاتا ہے۔ تشدد یا قتل ثابت ہوجائے تو پولیس افسر کی زندگی جیل میں گزرتی ہے۔
میں شرط لگاسکتا ہوں کہ ابصار صاحب کے بیٹے پر تشدد کرنے والے کسی ایک شخص کو بھی سزا نہیں ملی ہوگی۔ سزا تو دور کی بات، پوچھ گچھ تک نہیں ہوئی ہوگی۔ ممکن ہے کہ انعام ہی دیا گیا ہو۔ ساہیوال میں بچوں کے سامنے والدین کو قتل کرنے والوں میں کسی کو سزا ہوئی؟ راو انوار کو سزا ہوئی؟ بلوچوں کا تو ذکر کرنا بھی گناہ ہے۔
میں ابصار صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں۔ وہ ہم خیال ہیں۔ جیو میں سینئر کولیگ رہے ہیں۔ اپنے "باغیانہ” خیالات کی وجہ سے قاتلانہ حملے کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان کے اکلوتے بیٹے کا واقعہ آپ نے اوپر پڑھ لیا۔ اس کے باوجود انھوں نے آج کے کالم میں وطن سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ بآسانی بیرون ملک منتقل ہوسکتے ہیں اور اچھی زندگی گزار سکتے ہیں لیکن انھوں نے وطن میں رہنے کی بات کی ہے۔
میں ابصار صاحب کے جذبات سمجھ سکتا ہوں۔ عام پاکستانی ایسا ہی محب وطن ہے۔ لیکن یہاں میرے اور ابصار صاحب کے خیالات مختلف ہوجاتے ہیں۔ گھر میں آگ لگی ہو تو اس سے محبت نبھانے کے لیے اپنے کمرے میں نہیں بیٹھے رہتے۔
میں نے اپنے بچوں کو اپنی استطاعت سے بڑھ کر اچھی تعلیم دی ہے، ان کی اچھی تربیت میں بیوی کا ساتھ نبھایا ہے، ان کی ضروریات اور خواہشات، جس حد تک ممکن تھا، پوری کی ہیں۔ لیکن کوئی خاص بات نہیں۔ سب والدین ایسا کرتے ہیں۔ جس کام پر میں اپنا کندھا تھپتھپاتا ہوں اور خود کو داد دیتا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں اپنے بچوں کو لے کر ملک سے نکل آیا۔ جہاں قانون کی حکمرانی نہیں، وہ کسی کا وطن نہیں۔