کالم

میرے کالم ”آرمی چیف کو باجوہ ڈاکٹرائن، جنرل فیض کے دفاع کا مشورہ ! “ پر زاہدہ جاویدکا خط اور میرا جواب

میرے کالم ”آرمی چیف کو باجوہ ڈاکٹرائن، جنرل فیض کے دفاع کا مشورہ ! “ پر زاہدہ جاویدکا خط اور میرا جواب

Reading Time: 5 minutes

26فروری کا آرٹیکل ”آرمی چیف کو باجوہ ڈاکٹرائن، جنرل فیض کے دفاع کا مشورہ ! “:

زاہدہ جاوید کا موقف

پاکستان 24 میں شائع میرے 26 فروری کے آرٹیکل کے بعد آج مُجھ سے زاہدہ جاوید اسلم نے لندن سے رابطہ کیا اور میرے آرٹیکل میں دیے گئے واقعات اور اُس سے جُڑے اپنے کیس کے سلسلے میں کُچھ اہم حقائق سے آگاہ کیا۔

اُن کا کہنا ہے کہ جس ہاؤسنگ سوسائٹی کا میں نے کالم میں نام لیے بغیر ذکر کیا ہے، پہلے وہ اس سوسائٹی کی مالک تھیں اور موجودہ مالک سے اُن کی مقدمہ بازی ہے۔

بات کرنے سے پہلے میں نے اُن سے ڈبل کنفرمیشن کی کہ کیا وہ واقعی زاہدہ جاوید اسلم ہیں؟
اُنہوں نے پاسپورٹ کے ساتھ اپنی تصویر بھجوائی اور پھر وڈیو کال پر تصدیق کی کہ وہ ہی ” زاہدہ جاوید اسلم” ہیں۔
اُنہوں نے ایک خط لکھا ہے جو اُنہوں واٹس ایپ پر بھی شئیر کیا ہے اور مُجھے بھی بھیجا ہے۔ اس لیے یہ میری پیشہ وارانہ ذمہ داری اور دیانتداری کا تقاضا ہے کہ میں نہ صرف اُن کا موقف من و عن چھاپوں اور انُ کی کُچھ باتوں کا جواب دینے کا اپنا حق بھی استعمال کروں۔

میں اپنا جواب اور اُن کا خط بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے شائع کر رہا ہوں۔
میرا جواب پہلے ملاحظہ کیجیے:

مورخہ ۲۸ فروری ۲۰۲۳
مُحترمہ زاہدہ جاوید اسلم
آداب!

آپ کا شُستہ اُردو میں لکھا خط پڑھ کر مُسرت ہوئی۔ حیراں لیکن میں اس بات پر ہوں کہ آپ کا مورخہ یکم مارچ ۲۰۲۳ کو تحریر کردہ خط بندہ ناچیز کو ۲۸ فروری ۲۰۲۳ کو ہی موصول ہو گیا۔ یہ انہونی تو آج کل کے برقی مواصلاتی دور میں کسی روحانی شخصیت کے کرشمے کے بغیر بھی مُمکن نہیں۔ لیکن خیر۔۔۔۔ آپ کے کہنے پر آپ کا موقف من و عن چھاپ رہا ہوں تا کہ آپ کو شکوہ نہ رہے۔ لیکن ریکارڈ کی درستگی کے لئے آپ کے خط کی کُچھ باتوں کا جواب دینا میرا حق ہے۔

۱- سب سے پہلے تو یہ بات کہ میرے کالم میں نہ آپ کا ذکر ہے، نہ ہی یہ آپ کے کسی ذاتی، دیوانی یا فوجداری مقدمے کے بارے میں ہے، نہ میری آپ سے کوئی جان پہچان یا دُشمنی ہے۔

۲- میں نے کالم لکھا سینئر اینکر کامران خان کے ٹویٹ کے بعد جس میں جنرل فیض کے آرمی وردی میں فوج کا ڈسپلن توڑنے پر تحقیقات کی بات کی گئی تھی۔

۳- آپ کا اور آپ کے خط کا شُکریہ کیونکہ آپ کے اس خط نے میرے کالم میں دی گئی اطلاعات کی تصدیق کردی ہے اور جب تحقیقات شروع ہوں گی تو جن اشخاص پر وردی میں ڈسپلن توڑنے کا الزام ہے، آپ کا خط اُن پر فردِ جُرم ہو گا۔

۴- میری اپیل ہے وزیراعظم سے، چیف جسٹس سے اور آرمی چیف سے کہ آپ کے اس اہم خط کے بعد اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور جو بھی مُجرم ہوں اُن کو کٹہرے میں لایا جائے اور حق دار کو اُس کا حق دلایا جائے۔
۵- میری ذات بارے بنائی گئی آپ کی رائے نہایت ہی ناپُختہ اور اور ناقص انٹیلیجنس کی بُنیاد پر ہے اس لئے ہی آج ہمارا پیارا وطن اس حالت میں ہے کہ آپ جیسے خوشحال لوگ لندن کی ٹھنڈی فضاؤں میں بیٹھ کر ہماری گرم آہوں اور غمزدہ سسکیوں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔

۶- میرا اور میرے بچوں کی روٹی کا ایک ایک نوالہ رزقِ حلال کا ہے، الحمد اللہ۔ میں اللہ کا انتہائی شُکر گُزار ہوں جس نے کٹھن وقت میں بھی کبھی رزقِ حلال کے راستے سے بھٹکنے نہیں دیا۔ ورنہ باجوہ ڈاکٹرائن کے دورِ فیضی میں میرے اور میری فیملی کے ساتھ کیا کُچھ نہیں ہوا لیکن کبھی مُجھ پر بے ایمانی، پیسے کی ہیر پھیر یا کرپشن کا الزام میرے دُشمن بھی نہ لگا سکے، آپ نے کیسے اتنا بڑا بُہتان لگا دیا؟ اس کا معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیا۔

۷۔ ”بُغض” اور ”سکور سیٹلنگ” میرا شیوہ نہیں۔ دُشمن سے بھی نہیں کرتا تو یہ فوج تو میری اپنی فوج ہے۔
۸- اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ چند لوگ وردی پہن کر سیاست کرتے ہیں یا مال بناتے ہیں، جو آئین شکنی اور حلف کی خلاف ورزی ہے۔ میرا سگا بھائی بھی کرے گا تو سوال پوچھوں گا۔ اور پچھلے تیس (۳۰) سال سے یہی کر رہا ہوں۔ اس لئے آپ کا یہ الزام بھی اللہ پر چھوڑتا ہوں۔
۹- میرے لیے نہ وہ ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک ”ہیرو” ہے نہ ولن اور نہ آپ میرے لئے ہیروئن ہیں یا ولن۔ میں جس حقیقت پر یقین رکھتا ہوں وہ کہتا اور لکھتا ہوں۔
اور مُجھے اُس کی، آپ کی یا کسی بھی اور شخص کی ذاتی زندگی سے نہ کُچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی دلچسپی ہے۔

۹- آپ نے اپنے کیس کے سلسلے میں ہونے والی مُلاقاتوں کی جو بھی تفصیل مُجھے بتائی وہ میرے پاس اُس وقت تک امانت ہے جب تک کہ تحقیقات کا آغاز نہیں ہوتا۔
—- ابصار عالم

~ اب مُحترمہ زاہدہ جاوید اسلم کا خط یہاں‌ملاحظہ کریں.

زاہدہ جاوید اسلم
مورخہ یکم مارچ ۲۰۲۳
محترم ابصار عالم
تسلیمات!
مورخہ ۲۷ فروری ۲۰۲۳ کو آپ کا آ ہوں، سسکیوں اور درد بھرا کالم پڑھا جس میں آپ کے درد کا احوال آپ کے الفاظ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں.

محترم !
مجھے اس سے کوئی غرض نہیں آپ اپنے اندر کا درد کا موقع ضائع نہ ہونے دیں لیکن میرے حوالے سے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے میرے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے کے ساتھ مل کر اس کے حق پہ قصیدہ لکھ کر میری دل آزاری کی اور اپنی اخلاقی اور صحافتی تربیت کا منہ بولتا ثبوت دیا
اگر آپ نے عسکری اداروں کے خلاف اپنا سکور سیٹل کرنا چاہتے ہیں تو بیشک کریں وہ آپ کا حق ہے اور آپ کے بچوں کو روٹی کا نوالہ دینے والوں کا آپ پہ اور آپ کے بچوں پہ قرض ہے وہ ضرور چکائیں. لیکن صحافت کے تقاضوں کے عین مطابق ایک مظلوم عورت جس کو اس کے 35 ہزار کے ملازم نے لوٹا آپ نے اس ہیرو بنا کر پیش کیا اور مقدمہ کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور میرا موقف تک مجھ سے نہ لیا گیا جو کہ میرے ساتھ سراسر زیادتی ہے .

آپ نے عسکری اداروں اور ملکی سالمیت کے خلاف جو زہر افشانی کرنا چاہتے ہیں بےشک کریں اس کا جواب ادارے دینا چاہیں گے تو دے لیں گے.

میں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے کے حوالے سے عسکری عدالتی اور انتظامی اداروں کو درخواستیں کیں جس پر عسکری اداروں نے آپ کے پڑھے لکھے ہیرو جوان کاروباری شخص کے خلاف انکوائری کی جس پر اس کی ملک دشمنی کے ٹویٹ اور کراچی میں بدمزگی پیدا کرنے کے لئے اسلحہ کی فراہمی اور میرے ہاوسنگ پراجیکٹ پر اسلحہ کے استعمال کرنے کا تربیتی کیمپ چلانے کے الزام میں اسلحہ اور ملک دشمن نیٹ ورک کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن ادارے مجھے میرا حق دلانے میں ناکام رہے.

گرفتاری کے موقع پر اس نے اداروں کے سامنے میرے ساتھ کرنے والی زیادتی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ انھیں یقین دہانی کرائی کہ میں باہر جا کر زاہدہ کو اس کی امانت واپس لوٹا دوں‌گا. آپ کے ہیرو نوجوان بزنس مین جسے کراچی میں غیر قانونی سرگرمیاں کی وجہ سے والد نے گھر سے نکالا ہوا تھا اس وقت اس کا بہت ہی ہمدرد چچا جو اس کے حرام کے پیسے پہ عیاشی کر رہا ہے اس نے بھی اسے اسلام آباد میں اپنے گھر پناہ نہیں دی تھی. کراچی سے اسلام آباد آنے کے ٹکٹ پہننے کے لئے کپڑے اور رہنے کے لئے اپنی بہن کا گھر اور کرایے کی گاڑی میں نے دی.

میں نے عدلیہ میں سول جج سے لے کر چیف جیسٹس سپریم کورٹ تک کے دروازے پر دستک دی لیکن میں آپ کے ہیرو نوجوان بزنس مین جو اس وقت حرام کی دولت کے انبار پہ براجمان ہے بے بس رہی کیونکہ وہ ایف الیون میں اپنے عیاشی کے اڈے پہ روزانہ شراب و شباب کی محفل رچاتا ہے جس میں آپ کے اسلام آباد کے بڑے بڑے صحافی وکیل جج اور بیوروکریٹ موجود ہوتے ہیں اور آپ کی اپنی قائد مریم بی بی کو دی ہوئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہاں بھی ان کی وڈیو بنائی جاتی ہیں.
جناب ابصار عالم صاحب
آپ نے اپنے ہیرو کی محبت اور قومی سلامتی کے اداروں کے بغض میں میرا نام تک غلط لکھا اور میرے مقدمے میں میرے حقائق کو مسخ کیا .
قومی سلامتی کے اداروں نے وعدے کے مطابق مجھے میرا حق نہ دلایا اور آپ کے ہیرو نے کس کو کیا دیا میرے علم میں کچھ بھی نہیں ہے .
جناب ابصار عالم مجھے امید ہے کہ آپ میرا موقف مجھ سے لے کر ضرور شائع کریں گیں

—- زاہدہ جاوید اسلم

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے