کالم

یہ پاور پالیٹکس ہے حق و باطل کا معرکہ نہیں

مئی 11, 2023 3 min

یہ پاور پالیٹکس ہے حق و باطل کا معرکہ نہیں

Reading Time: 3 minutes

فدوی نے نومبر بائیس میں درج ذیل تحریر لکھی تھی، آج دوبارہ شئیر کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ ہم بہت پہلے سے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ براہ کرم پاور پالیٹکس کو حق و باطل کی جنگ مت بنائیں کیونکہ پاکستان کے آدھا فیصد لوگوں کے علاوہ ساڑھے نناوے فیصد جاہلوں کے اس ملک میں سو کالڈ باطل کے خلاف بھڑکائی ہوئی آگ میں سو کالڈ حق کو بھی جھلسنا ہوگا، بدقسمتی سے عمران خان اور ان کے حامی ریاست کو اس جگہ پر لے گئے ہیں جہاں ان کے پاس ردعمل نہ دینے کا کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔

عمران خان ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں اسمبلی سے ووٹ آؤٹ ہو کر اسمبلی چھوڑ کر بھاگے تھے جو حق و باطل کا معاملہ نہیں تھا بلکہ پاور پالیٹکس تھی، لیکن انہوں نے اسے حق و باطل کا معاملہ بنانے کی کوشش کی۔

عمران خان اور ان کے فین کلب کا انجام اب تقریباً یقینی ہے اور یہ ایک دردناک انجام ہے۔

اب وہ تحریر پڑھیے:

"ہمارے ایک دوست کو یہ گلہ ہے کہ کچھ لوگ صرف عمران خان کے خلاف پوسٹس کرتے ہیں لیکن نہ تو بلاول کے حق میں اور نہ ہی نون لیگ کے حق میں کوئی پوسٹ کرتے نظر آتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ ایسے لوگ دراصل دل سے نون لیگ کے حق میں ہیں لیکن شرمندگی کے باعث اس کا علی الاعلان اظہار نہیں کرتے۔

ہماری نظر میں نون لیگ، پی ٹی آئی، پی پی، اے این پی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی پاکستان کی پاور پالیٹکس کی روایتی جماعتیں ہیں۔
یہ نہ حق ہیں اور نہ ہی باطل
پاکستان کی سوسائیٹی میں جو جو برائیاں موجود ہیں وہ ان میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔
یہ نان ڈیموکریٹک، اقربا پرور، کرپٹ ہیں۔
بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان کا ڈاکٹر، انجینئر پھل فروش اور کاروباری فرد کرپٹ ہے۔

پورا معاشرہ ایک سی اخلاقی سطح پر کھڑا ہے، اب جس کو زیادہ موقع ملتا ہے وہ زیادہ لمبا ہاتھ مارتا ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے معاشرے اس فیز سے گذرے ہیں اور کچھ گذر رہے ہیں۔
ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی ملتی جلتی صورتحال سے دوچار ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ بہرِحال انقلاب نہیں ہے بلکہ تدریج کا عمل ہے، اسٹیبلشمنٹ تدریج کے عمل کو بار بار روکتی رہی اس لئے سنتھیسائزیشن کا عمل بھی رونما نہ ہوسکا۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی انقلاب کی بات کرے وہ احمق بھی ہے اور دراصل تدریج کے عمل میں رکاوٹ بھی ہے۔

ہم یہ مانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں سے ایک جماعت پی ٹی آئی جو دعوے کرتی ہے وہ اکثر لغو اور احمقانہ تھے اور ہیں۔

پروٹوکول نہ لینے کے دعوے، سترہ رکنی کابینہ کے دعوے، الیکٹییبلز کی مدد نہ لینے کے دعوے، اقربا پرور نہ ہونے کے دعوے، راتوں رات کرپشن ختم کرنے کے دعوے، کرپشن کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھنے اور قرار دینے کے دعوے،پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے، تصوف کو پاکستان کے مسائل کا حل قرار دینے کے دعوے، خواتین کے لباس کو ریپ کی وجہ قرار دینے کے دعوے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی دراصل ایک فرد کی سوچ کا نام ہے اور وہ فرد جذباتی طور پر بہت غیر مستحکم ہے اور یہ رائے ہم نے اس کی گفتگو اور کارکردگی کی وجہ سے قائم کی ہے نہ کہ اس کی ظاہری شکل و شباهت سے۔

یہ تو ہے پس منظر اس بات کا کہ مجھ جیسے لوگ جن کے لئے میں نے ہم کا صیغہ استعمال کیا ہے کیوں عمران خان کے خلاف ہیں۔

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ جتنا زوردار دعویٰ ہوتا ہے اتنا ہی زوردار رد دعویٰ بھی ہونا چاہیے، عمران خان کا مسٹر پرفیکٹ ہونے کا دعویٰ بہت زوردار ہے اسی لئے ہمارا رد دعویٰ بھی زوردار ہے۔

ہمارے وہ دوست اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہیں اور اس کا اظہار کرنے میں بھی کوئی قدغن نہیں، ہم انہیں نہ منافق سمجھتے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس انداز میں کیوں نہیں سوچتے جس انداز میں ہم سوچتے ہیں۔

ہم ان کے لئے دعا گو ہیں کہ بذریعہ عمران خان پچھلے ساڑھے تین سال کی طرح ان کا متوقع انقلاب، حقیقی آزادی، غلامی سے نجات، مدینہ کی ریاست کا قیام کرپشن سے پاک معاشرہ، گڈ گورننس کی فتح جیسے کارنامے رونما ہوجائیں تاکہ ہم بھی بطور ایک منافق پاکستانی ان فوائد سے بہرہ مند ہوسکیں۔”

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے