کالم

عمران خان اور فوج کا اونٹ

مئی 31, 2023 3 min

عمران خان اور فوج کا اونٹ

Reading Time: 3 minutes

ایما سارجنٹ کا نام پہلی بار اخبار وطن میں پڑھا تھا۔ آج وہ انگلینڈ کے بہترین مصوروں میں شمار کی جاتی ہیں۔ لیکن اسی کی دہائی میں وہ نوجوان تھیں۔ ایسی عالمی شہرت نہیں رکھتی تھیں کہ پاکستان کے کسی اردو رسالے میں ان کا ذکر آتا۔

وہ عمران خان کی دوست تھیں۔ دونوں میں کافی قربت تھی۔ شادی تک بات پہنچ گئی تھی لیکن نہ ہوسکی۔ ان کی ویب سائٹ پر عمران خان کا ایک پینسل اسکیچ دیکھا تو اسے کئی سال پہلے یہیں فیس بک پر شئیر کیا تھا۔

خان کے ساتھ یہ مسئلہ ہے۔ اسے تعلقات نبھانے نہیں آتے۔ ہر کسی سے وقتی دوستی کرتا ہے۔ یہ دوستی بھی صرف اس کے فائدے کی ہوتی ہے۔ وہ کسی کو فائدہ نہیں پہنچانا چاہتا۔ کوئی چالاکی سے اپنا الو سیدھا کرلے تو یہ اس کا کمال ہے۔

انگلینڈ کی نائٹ لائف میں جن لڑکیوں سے دوستی ہوئی، ان کا شمار کرنا آسان نہیں۔ برطانوی اخبارات میں ایک سے زیادہ فہرستیں چھپ چکی ہیں۔ اداکارائیں الگ ہیں۔ سیتا وائٹ سے بے وفائی کا قصہ الگ۔ جمائما سے شادی کی، وہ نہ چل سکی۔ ریحام خان کو دھوکا دیا۔

سیاست کا حال جہانگیر ترین بتاسکتے ہیں، علیم خان بتاسکتے ہیں، جاوید ہاشمی تو پی ٹی آئی کے عروج پر بتا ہی چکے ہیں۔

پہلے میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ فوج نے طبعی طور پر بے وفا اور ناقابل اعتبار شخص پر بھروسا کیوں کیا۔ لیکن پھر میں نے 65ء کی جنگ کا سبب بننے والے آپریشن جبرالٹر، مشرقی پاکستان کے آپریشن سرچ لائٹ اور کارگل جنگ کا سبب بننے والے آپریشن بدر کی ناکامیوں کے بارے میں پڑھا۔ مغربی پڑوس کی تزویراتی گہرائی کے آپریشن کی ناکامی پر غور کیا۔ تب سمجھ میں آیا کہ پاک فوج کی منصوبہ بندی میں نقص ہے۔ اس کے وہ آپریشن ناکام رہتے ہیں جن کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس کے صرف مارشل لا آپریشن کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ ان پر براہ راست عمل کیا جاتا ہے۔

فوج اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہے۔ جہانگیر کرامت نے غلطی کی، مشرف نے آکر براہ راست حملہ کیا۔ اس بار باجوہ نے غلطی کی، اب عاصم منیر براہ راست آپریشن کررہے ہیں۔

جمہوریت کے لیے اعلی آدرش تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھ کر اپنی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں اور نوے کی دہائی کے آخر میں نواز شریف کے عزائم یاد کریں۔ مشرف کا آنا ضروری ہوگیا تھا۔ بینظیر احمق نہیں تھیں کہ اس وقت مشرف کا خیرمقدم کیا تھا۔ فوج نہ آتی تو نواز شریف نے سویلین آمریت قائم کرلینی تھی۔

لیکن پھر وہی ہوا جو فوجی آمر کے آنے سے ہوتا ہے۔ مشرف کا قبضہ طویل ہوتا گیا، اقتدار کی خواہش بڑھتی گئی اور آخر فوج کے اندر سے اپنے باس کے خلاف تحریک نکلی جس نے وکلا کو استعمال کیا۔

باجوہ کا یوٹرن اور عاصم منیر کا آپریشن فوج کی غلطی سدھارنے کے لیے ہے۔ بہت سے لوگوں کو اچھا لگ رہا ہے۔ میں بھی خوش ہونے والوں میں شامل ہوں کیونکہ یہ ضروری تھا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟

فوج وہ اونٹ ہے جو خیمے میں گھس جائے تو آسانی سے باہر نہیں نکلتا۔ بینظیر نے دو بار اونٹ سے مزاحمت کی۔ ایک بار ضیا الحق کا طیارہ پھٹ گیا لیکن دوسری بار مشرف کو ایک ڈیل کرکے نکالا گیا۔ سیاست سے نابلد لوگ کہتے ہیں کہ بینظیر نے جرنیل سے این آر او لیا۔ کون سا این آر او؟ وہ تو مشرف کو اقتدار سے باہر نکلنے کا راستہ دیا تھا۔ خود بینظیر کو کیا فائدہ ہوا؟ انھوں نے تو جانتے بوجھتے موت کو گلے لگایا۔
اس وقت جرنیلوں میں غصہ ہے۔ ان کے راستے میں نہیں آنا چاہیے۔ جب وہ خان کی سیاست کا قصہ نمٹادیں گے اور کچھ ٹھنڈے پڑیں گے، تب الیکشن کا انعقاد ہوگا۔ وہ سیاست دانوں کے لیے ایک موقع ہوگا۔

اس وقت سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یعنی فوج کو خوب شاباشی دیں۔ پیسے ہوں تو دفاعی بجٹ میں تھوڑا سا اضافہ کریں۔ ساتھ بیٹھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی ایسے کریں کہ جرنیلوں کو اپنی شمولیت کا احساس ہو۔ پھر دھیرے دھیرے وہ اسپیس واپس لیں جو کھو چکے ہیں۔

خان نے سیاست کو بھی گالی بنادیا ہے اور مزاحمت کو بھی۔ بینظیر بھی موجود نہیں ہے اور کسی اور کا خون بھی نہیں بہنا چاہیے۔ اونٹ اب فورا خیمے سے نکلنے والا بھی نہیں۔ اسے چوم چمکار کے ہی بلبلانے سے روکا جاسکتا ہے۔ نکیل ڈالنے میں تو بہت سال لگیں گے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے