چِپ سے چُپ تک
Reading Time: 2 minutesجب اکثر 20 سے کئی سو تک انجینئر لوگ مل کر ایک چِپ ڈیزائن کرتے ہیں تو اس پر موجود کئی ہزار سے لے کر بیس تیس لاکھ ٹرانزسٹر آپس میں پیغام رسانی میں مشغول ہوتے ہیں اور وہ باتیں کرنٹ اور وولٹیج کی شکل میں ہوتی ہیں۔
چِپ کا کل سائز ایک مربع ملی میٹر سے بھی کم سے لے کر 2 مربع سینٹی میٹر تک ہوتا ہے۔ ٹرانزسٹر کے اسٹرکچر چِپ پر کندہ کیے جاتے ہیں آج کل یہ نشیب و فراز پر مشتمل سٹرکچر صرف چند ایٹموں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دنیا میں اتنی طاقتور مائیکروسکوپ نہیں بنی جو انسانی آنکھ کو ان نشیب و فراز کا مطالعہ کرنے کے قابل بنا سکے۔
ٹرانزسٹر کی آپس میں پیغام رسانی کے تعطل کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے چِپ بناتے وقت بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ بعد میں کوئی ایسا ٹرانزسٹر نہ ہو جو اپنا کام ٹھیک سے نہ کر سکے ورنہ سب کی محنت بےکار چلی جائے گی۔ انجینئرز کے تعلیم، تجربے، انتھک محنت اور ہر طرح کی سوچ بچار کے باوجود اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چِپ سرے سے کام ہی نہیں کرتی۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا کہ انسان دیکھ نہیں سکتا کہ کہاں پر تعطل ہے۔ لیکن اس کے باوجود خود انسان بالواسطہ طور پر ایسے طریقے ڈھونڈتا ہے کہ جس سے اس تعطل کا پتہ چلایا جا سکے۔ ورنہ سینکڑوں انسانوں کی محنت بےکار ہو جاتی ہے اور کئی ملین ڈالر کا نقصان ہو جاتا ہے ۔
دنیا کے سارے انسان بھی انفرادی ٹرانزسٹر کی طرح ہی ہیں جو آپس میں پیغام رسانی کرتے ہیں، لیکن پیغام رسانی میں اکثر جگہ تعطل آ جاتا ہے یعنی انسانی "چُپ” لگ جاتی ہے- معاشرے میں جو بات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانی مقصود ہوتی ہے وہ ٹھیک طریقے سے نہیں پہنچ پاتی۔
بہت سارے انسان تو جان بوجھ کر اپنی انا کو لے اس تعطل کا حصہ بنتے ہیں اور کچھ عادت، جبلت یا کسی مسئلے کے ہاتھوں مجبور- ایسے پیغام رسانی کے تعطل یا افراد کی چُپ علم نفسیات کو جنم دیتی ہے۔ جہاں ان کی ان کہی باتیں بھی مختلف بالواسطہ طریقوں سے معلوم کی جاتی ہیں۔ تاکہ معاشرے اور انسانی تعلق کی روانی کے عمل کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکے.
راقم نے یہ علم کسی یونیورسٹی میں حاصل نہیں کیا، بلکہ ابتدائی علم اپنی والدہ سے گھٹی میں وصول پایا ہے
انسان کا تجسس اور مشاہدہ اس علم کی اصل خوراک ہے کہ جس سے وہ ان کہے جملے اور رویے پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ اور انسانی خاموشی سے بہت کچھ سیکھتا و سمجھتا ہے۔
میں اپنی جوانی تک علم عمرانیات میں ایک انتہائی کند ذہن انسان تھا۔ اور سکول ہو یا کالج یا یونیورسٹی، میرا ہر جگہ پر ٹھٹھہ لگتا تھا۔ تجسس مشاہدے اور ذہن کے روشندان کھلے رکھنے سے میں نے کوئی کتاب پڑھے بغیر بھی یہ علم قدرے حاصل کرلیا۔
چِپ کا علم میں نے باقاعدہ یونیورسٹی اور اپنی بیس سال کی نوکری سے حاصل کیا۔ اور دوسرا انسانی چُپ کا علم شوقیہ اور اپنے چند دوستوں کی پذیرائی کے طفیل حاصل کیا جن کا میں آج بھی بے حد مشکور ہوں۔ لہذا جو دوست آپ کو اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا موقع دیتے ہیں، ہمیشہ ان کا شکر ادا کریں۔ کہ وہ زندگی میں آپ کے بہت بڑے محترم استاد ہوتے ہیں.