کالم

آزادی پائیں، آزادی پھیلائیں

جولائی 10, 2023 3 min

آزادی پائیں، آزادی پھیلائیں

Reading Time: 3 minutes

پاکستانی خواتین بحیثیت مجموعی ایک مظلوم گروہ ہے۔ انھیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ انھیں ویسی آزادی حاصل نہیں جیسی مردوں کو ہے۔ ظلم ایک بھاری لفظ ہے اور تمام یا بیشتر خواتین کو ظلم کا شکار کہنا شاید درست نہیں ہوگا لیکن بہت سی خواتین ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔

اس صورت حال کو بدلنے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔ کی بھی جارہی ہیں۔ اس کا سب سے موثر طریقہ شعور اجاگر کرنا ہے۔ غلط عقائد، روایات، رسوم اور رواج کو تعلیم اور شعور بڑھاکر ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ انفرادی واقعات میں اگر کسی خاتون پر ظلم ہوا ہو تو مجرم کو سزا ملنی چاہیے۔

اجتماعی شعور کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے دانشوروں، اساتذہ، ادیبوں، صحافیوں، لکھنے پڑھنے اور بولنے والے لوگوں کا کردار اہم ہے۔ یہ ایک دن میں نہیں ہوسکتا۔ اس میں برس، دہائیاں اور بعض اوقات صدیاں لگ جاتی ہیں۔

ہندوستان میں ستی کی رسم ایک مثال ہے۔ ایک دن اچانک اس کا خاتمہ نہیں ہوا۔ رفتہ رفتہ معاشرے میں اس کے خلاف رائے بنی۔ اس رفتہ رفتہ کے بیچ بے شمار خواتین کی جان گئی۔ لیکن ایک دن آیا کہ ستی کی رسم مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ آج کوئی بیوہ خاتون شوہر کے مرنے پر زندہ آگ میں نہیں جلتی۔

ذاتی اور عملی طور پر خواتین کے ساتھ ناانصافی کے شدید خلاف ہوں۔ آپ شاید یہ کہنے کی ہمت نہ کریں لیکن میں صاف صاف کہتا ہوں کہ خواتین کے بارے میں اسلام کا رویہ متعصبانہ ہے۔ اصل اسلام جو بھی ہو، جو اسلام ہمارے سامنے ہے، وہ عورت دشمن ہے۔ میں حضرت علی کا پرستار ہوں لیکن نہج البلاغہ میں عورت دشمنی کی باتیں ہیں۔

میں نے جن اداروں میں کام کیا، ان کی خواتین بتاسکتی ہیں کہ میں نے ان کا کتنا احترام کیا۔ جن خواتین سے کسی بھی صورت واسطہ پڑا، وہ گواہی دے سکتی ہیں کہ میں نے اپنی آنکھ اور زبان کو قابو میں رکھا۔ بابا کے پاس کوئی جائیداد نہیں تھی لیکن جو بھی پیسہ چھوڑ کے گئے، وہ بہنوں میں برابر تقسیم کیا۔ بیٹے اور بیٹی کو ایک معیار کے اسکول میں پڑھایا اور ایک درجے کی آزادی دی۔

ذاتی مثال اس لیے دی اور ذاتی نظریات اس لیے بیان کیے کہ آگے ذاتی رائے بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آئے گی۔ میں پہلے بھی اظہار کرچکا ہوں۔ لیکن مجھے سچ یہی لگتا ہے کہ پاکستانی برینڈ فیمنزم خواتین کے حقوق کا دفاع یا ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ سماج میں تبدیلی نہیں چاہتا۔ پاکستانی فیمنسٹ فقط سوشل میڈیا پر اچھل کود چاہتے ہیں۔ انھیں سماجی شعور کا دائرہ وسیع کرنے کے بجائے اپنے دوستوں کا حلقہ مختصر کرنے کا شوق ہے۔

بہت ایمان داری سے میرا خیال ہے کہ پاکستانی برینڈ فیمنزم شدت پسندی کا جوہر رکھتا ہے۔ بین السطور ان کا نعرہ ہے، جو ہم سے کلی طور پر متفق نہیں، وہ پوٹینشل ریپسٹ ہے۔ ہر اختلاف رائے ان کے نزدیک کفر کا درجہ رکھتا ہے۔

اچھا ہوا یہ آدمی کھل گیا، اصلیت سامنے آگئی، حقیقی چہرہ نظر آگیا، اس قسم کی احمقانہ باتیں دوست کم کرتی ہیں۔ پچھلی بار جو آپ سے متفق تھا، اگلی بار خاموش رہے گا۔ اس سے اگلی بار کھل کر اختلاف کرے گا۔ اس کے بعد مخالفانہ مہم بھی چلاسکتا ہے۔ شدت پسندی کا مسئلہ ہے کہ اس کے جواب میں بھی شدت پسندی آتی ہے۔

مناسب طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ لوگوں کے ذہن بدلے جاتے۔ پہلے ان لوگوں کے، جن کے خیالات سے اختلاف تھا۔ پھر مل کر مہم چلائی جاتی۔ کسی مہم، کسی تحریک کی کامیابی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب زیادہ آوازیں مل جاتی ہیں۔ لڑائیاں کرنے سے اصل مدعا کھو جاتا ہے۔

اصل مدعا کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر غل غپاڑے اور دشمنیاں پالنے سے کسی لڑکی کے والدین بیٹے والے اسکول میں اس کا داخلہ کروادیں گے؟ خواتین کو وراثت میں حصہ مل جائے گا؟ والدین کی مرضی سے لڑکیوں کی شادیاں رک جائیں گی؟ شوہر کی مرضی سے بچے پیدا کرنے کا سلسلہ تھم جائے گا؟ وجائنا کے تالے کھل جائیں گے؟

اگر ہاں، تو غل مچائیں۔ اور مچائیں۔ دوست گھٹائیں۔ دشمن بنائیں۔ آزادی پائیں۔ آزادی پھیلائیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے