کالم

توشہ خانہ کیس، عمران خان کی سزا اور نا اہلی کا ذمہ دار کون؟

اگست 6, 2023 7 min

توشہ خانہ کیس، عمران خان کی سزا اور نا اہلی کا ذمہ دار کون؟

Reading Time: 7 minutes

ابتدا سے ہی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کیخلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کور کیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور سے قبل ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کیس کی سماعت کرتے رہے ہیں تاہم اس وقت ٹرائل انتہائی سست روی کا شکار رہا۔

عمران خان شروعات میں پیش ہی نہیں ہوتے تھے جس کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے تھے۔
ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے نتیجے میں زمان پارک میں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے مابین تصادم بھی ہوا اور امن و امان کی صورتحال شدید متاثر ہوئی۔

انہی وارنٹ گرفتاری کے نتیجے میں جوڈیشل کمپلیکس پر حملہ بھی ہوا جب چیئرمین پی ٹی آئی حاضری لگانے کی غرض سے وہاں بڑی تعداد میں اپنے کارکن لے کر پہنچ گئے۔

اس روز میں اور میرے ساتھی رپورٹرز کمرہ عدالت کے اندر ہی محصور رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں کارکنان عدالت پر دھاوا بول دیں گے۔ کمرہ عدالت کی دیواروں پر شدید پتھراؤ ہورہا تھا اور آنسو گیس کی شدید شیلنگ کے باعث 5 گھنٹے انتہائی اذیت میں گزرے کیونکہ آنسو گیس کے اثرات کمرہ عدالت میں واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے تھے۔

امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر جج ظفر اقبال نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جوڈیشل کمپلیکس گیٹ پر ہی حاضری لگائی گئی اور انہیں وہیں سے واپس بھیج دیا گیا۔

یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ میں عمران خان پر امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا الزام عائد نہیں کر رہا کیونکہ میرے پاس اس بات کے کوئی ثبوت موجود نہیں۔ بظاہر پی ٹی آئی کارکنان کا یہ اشتعال انگیز رویہ پولیس کی شدید شیلنگ کا ردعمل تھا۔

جج ظفر اقبال کی ٹرانسفر کے بعد جج ہمایوں دلاور کو ان کی جگہ ایڈیشنل سیشنز جج تعینات کیا گیا اور اس تعیناتی کے بعد ٹرائل کی رفتار دگنی چگنی ہوگئی۔

9 مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی کو 190 ملین پاؤنڈز اسکینڈل میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کرلیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا کیونکہ نیب کا موقف تھا کہ گرفتاری باقاعدہ وارنٹس کے نتیجے میں عمل میں لائی گئی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی 9 مئی کی گرفتاری کو میں انتہائی غیر ضروری سمجھتا ہوں۔ ان کی گرفتاری نے ملک بھر میں آگ لگا دی اور پی ٹی آئی کارکنان گرفتاری کے ردعمل میں ایسی غلطیاں کر بیٹھے کہ اب ان کے پاس پچھتانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

انتہائی پڑھے لکھے نوجوان گرفتار ہوئے اور ان پر اب فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلے گا۔ دیکھا جائے تو ان بیچاروں سے سیاسی جوش و جنون میں جو غلطیاں سرزد ہوئیں اس کے باعث ان کی پوری زندگی تباہ ہوگئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے اگلے دن پولیس لائنز میں 2 کیمپ عدالتیں لگائی گئیں جن میں سے ایک جج ہمایوں دلاور کی تھی۔

جج ہمایوں دلاور نے عمران خان پر توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں فرد جرم عائد کی اور استغاثہ کو اپنے گواہان اور شواہد پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ یوں ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

اگلے ہی روز سپریم کورٹ کی طرف سے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر ان کی رہائی کا حکم نامہ جاری کردیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کے قابل سماعت ہونے کیخلاف درخواست دائر کردی۔

ایڈیشنل سیشنز جج ہمایوں دلاور نے درخواست پر الیکشن کمیشن کے وکلاء کے دلائل سنے اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کو دلائل کیلئے طلب کیا مگر وہ متعدد بار موقع فراہم کرنے کے باوجود دلائل کیلئے پیش نہ ہوئے۔

مسلسل دلائل سے راہ فرار اختیار کرنے پر جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کو سنے بغیر ہی درخواست پر فیصلہ کیا اور کس کو قابل سماعت قرار دے دیا۔

جج ہمایوں دلاور کے اس فیصلے کو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔ عمران خان کی لیگل ٹیم کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں کیس میں طوالت کے تمام حربے ناکام ہورہے ہیں۔

اس کا توڑ انہوں نے یہ کیا کہ جج ہمایوں دلاور کے کنڈکٹ پر اعتراضات اٹھانا شروع کر دیئے اور یہ کہنا شروع کردیا کہ جج ہمایوں دلاور کا رویہ متعصبانہ ہے۔ وکلا جج ہمایوں دلاور کے فیس بک اکاونٹ سے مبینہ طور پر کی گئیں 2014 کی پوسٹس ڈھونڈ لائے اور وہ پوسٹس کھلی عدالت میں لہرا دیں۔

جج ہمایوں دلاور کو یہ بات انتہائی ناگوار گزری اور انہوں نے وکلاء سے شکوہ کیا کہ آپ ان پوسٹس کا فارنزک کرواتے اور اعلیٰ عدلیہ میں لے کر جاتے لیکن آپ نے کھلی عدالت میں ان پوسٹس کو لہرادیا۔

جج ہمایوں دلاور نے وکلاء کے اس رویے کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکوٹ کو بھی تحریری طور پر آگاہ کیا اور انصاف کی اپیل کی۔ مختصر یہ کہ یہ پوسٹس بھی ٹرائل کی برق رفتاری کو کم کرنے میں ناکام رہیں۔

ٹرائل کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کیس کو جج ہمایوں دلاور کی عدالت سے کسی دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواستیں دائر کی جا چکی تھیں۔ ٹرائل میں الیکشن کمیشن کے گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے، عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دونوں گواہان پر جرح مکمل کی۔

عدالت نے ملزم چیئرمین پی ٹی آئی کے دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرانے کیلئے 35 سوالات پر مشتمل تحریری سوالنامہ تیار کروایا اور عمران خان کو ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر بیان ریکارڈ کوانے کا حکم دیا۔
جس دن چیئرمین پی ٹی آئی کا بیان ریکارڈ ہونا تھا اس دن عمران خان کے ہمراہ ان کی قانونی ٹیم کے رکن انتظار پنجوتھا وکلاء کا جتھا لے کر عدالت پہنچے اور جج ہمایوں دلاور سے بدتمیزی کی، تلخ کلامی کی جس کی وڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں اور پی ٹی آئی کارکنان بڑے فخر سے وڈیوز شیئر کرتے رہے۔

اس روز عمران خان نے بھی وکلاء کے رویے پر جج ہمایوں دلاور سے معافی مانگی اور وکیل خواجہ حارث نے بھی معافی کی درخواست کی جس پر جج ہمایوں دلاور نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکلاء کیخلاف قانونی کارروائی سے اجتناب کیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا دفعہ 342 کا بیان قلمبند کیا گیا۔ توقعات کے برعکس عمران خان نے مثبت طریقے سے اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔

اپنے بیان میں انہوں نے تمام الزامات کی تردید کی اور عدالت کو بہترین طریقے سے اپنا نقطہ نظر سمجھایا۔ اگر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء بھی تاخیری حربے استعمال کرنے کے بجائے اسی طرح دلائل دیتے جس طرح عمران خان نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تو ٹرائل کے نتائج مختلف ہوسکتے تھے۔

عمران خان نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنا چاہتے ہیں جس پر عدالت نے انہیں آئیندہ سماعت پر گواہان کی فہرست اور گواہان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔

اگلی سماعت پر بیرسٹر گوہر کی طرف سے گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کروائی گئی جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ فہرست میں شامل گواہان کیس سے متعلقہ نہیں۔ عدالت نے خواجہ حارث کو گواہوں کے کیس سے متعلقہ ہونے پر دلائل دینے کیلئے طلب کیا لیکن وہ پیش نہ ہوئے اور بیرسٹر گوہر نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔ عدالت نے خواجہ حارث کے پیش نہ ہونے پر حق دفاع ختم کردیا اور عمران خان کی جانب سے پیش کی گئی گواہان کی فہرست کو مسترد کیا۔

عدالت نے حتمی دلائل کیلئے دونوں فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء نے عمران خان کا حق دفاع ختم کرنے اور گواہان کی فہرست مسترد کرنے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔

اگلی سماعت پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے اپنے حتمی دلائل کا آغاز کیا تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہی نہ ہوئے۔

عمران خان کی لیگل ٹیم کے رکن نیاز اللہ نیازی کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی اور بتایا کہ خواجہ حارث اسلام آباد ہائیکورٹ میں مصروف ہیں اور اسی ٹرائل سے متعلق درخواستین اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں لیکن عدالت نے امجد پرویز کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ مختصر یہ کہ نیاز اللہ نیازی کی بار بار مداخلت اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں فیصلہ محفوظ ہونے پر عدالت نے سماعت اگلے روز تک کیلئے ملتوی کردی تاہم امجد پرویز کے دلائل جاری رہے۔

اگلے روز سماعت کے دوران امجد پرویز نے اپنے حتمی دلائل مکمل کیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے قابل سماعت ہونے سے متعلق معاملہ دوبارہ جج ہمایوں دلاور کو بھیجا اور کیس دوسری عدالت کو منتقل کرنے کی درخواستیں مسترد کیں تاہم ٹرائل کورٹ کو کسی قسم کا حکم امتناع جاری نہیں کیا۔

جج ہمایوں دلاور نے آئندہ سماعت پر وکلاء کو قابل سماعت ہونے سے متعلق معاملے اور ٹرئل کے حتمی دلائل کیلئے طلب کرلیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی ذاری حیثیت میں طلب کیا گیا تھا۔

5 اگست کو سماعت کا آغاز 8 بج کر 30 منٹ پر ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکلاء کی ٹیم عدالت میں پیش ہوئی تاہم عمران خان کے وکیل خواجہ حارث پھر پیش نہ ہوئے۔ عدالت نے موقع فراہم کرتے ہوئے سماعت ملتوی کی۔

اس روز 4 بار سماعت ملتوی کی گئی لیکن خواجہ حارث پیش نہ ہوئے۔ آخر عدالت نے خواجہ حارث کو 12 بجے پیش ہونے کی ہدایت کی اور کہا کہ اگر خواجہ حارث پیش نہ ہوئے تو فیصلہ محفوظ کرلیا جائے گا۔ 12 بجے سماعت شروع ہوئی تو خواجہ حارث ایک بار پھر عدالت میں موجود نہ تھے۔

جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ محفوظ کیا اور ساڑھے 12 بجے فیصلہ سنانے کا کہہ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے۔ تقریباً 12 بج کر 20 منٹ پر ہمیں خواجہ حارث عدالت میں آتے ہوئے دکھائی دیئے لیکن اس وقت تک شاید بہت دیر ہوچکی تھی۔ جج ہمایوں دلاور ساڑھے 12 بجے فیصلہ سنانے کمرہ عدالت میں آئے تو خواجہ حارث نے انہیں کچھ کہنا چاہا تاہم جج ہمایوں دلاور نے کہا مجھے فیصلہ سنانے دیں۔ یوں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 174 کے تحت 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی اور کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب قرار دیا۔

اس پورے ٹرائل کا چشم دید گواہ ہونے کے اعتبار سے میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کو ان کی لیگل ٹیم نے پھنسوایا۔ غلط قانونی مشورے دیئے، ٹرائل کے دوران پیش ہونے سے اجتناب کیا، جج کو بطور جج نہیں بلکہ ایک دشمن کی نظر سے دیکھا گیا، غیر ضروری تاخیری حربے استعمال کیے اور عدالت کو اپنے نقطہ نظر سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا۔

شاید وکلاء کو لگ رہا تھا کہ وہ اس کیس میں تاخیری حربے استعمال کرکے اس کو مزید لمبا کھینچ سکتے ہیں لیکن جج ہمایوں دلاور نے بڑے قانونی طریقے سے ان کے تاخیری حربوں کا اثر صفر کیا بلکہ کامیابی سے ٹرائل کو منتقی انجام تک پہنچایا۔ اگر پاکستان میں ہر کیس کا ٹرائل اسی رفتار سے چلایا جاتا رہے، وکلاء کے تاخیری حربوں کا جواب اسی طرح دیا جاتا رہے جس طرح جج ہمایوں دلاور نے دیا تو جلد پاکستان کی عدالتوں میں کیسز کی تعداد صفر ہو جائے گی۔ آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک سیاسی کیس تھا اور اس جیسے کیس ہم پہلے بھی پانامہ اسکینڈل کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔

اگر وکلاء کا رویہ کچھ بہتر ہوتا تو امکانات تھے کہ عمران خان آج جیل کے بجائے سڑکوں پر اپنی بریت کا جشن منا رہے ہوتے۔ اس کیس کے بعد خواجہ حارث کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ اب دو سابق وزراء اعظم کو جیل بھجوا کر نااہل کرا چکے ہیں۔ پانامہ کیس میں نواز شریف کے وکیل بھی خواجہ حارث ہی تھے، جبکہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان نے بھی خواجہ حارث کا بطور وکیل انتخاب کیا۔

اب اس فیصلے کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جائے گا تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کے انتخابات سے پہلے جیل سے باہر آنے کے امکانات انتہائی کم نظر آرہے ہیں۔ اگر جیل سے باہر آ بھی گئے تو آئین کے آرٹیکل 63، ون، ایچ کے تحت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے