کالم

معاشرے کے زومبیز

اگست 17, 2023 2 min

معاشرے کے زومبیز

Reading Time: 2 minutes

بہت سی فلموں میں زومبیز کے کردار نظر آتے ہیں جو کہ کسی کیمیکل ری ایکشن کی وجہ سے ایسے بن جاتے ہیں جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے قاصر ہوتے ہیں جبکہ ان کے کاٹنے سے صحت مند انسان بھی زندہ لاش یعنی زومبی بن جاتا ہے۔
زومبیز سے ملتے جلتے لوگ دنیا بھرمیں پائے جاتے ہیں جن کی مختلف اقسام ہوتی ہیں تاہم جنوبی ایشیا کے ممالک میں اس کی شدت زیادہ ہے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو گزشتہ چند ماہ کے واقعات پر نظر ڈالیں تو زونبیز کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا نظر آیا ہے. ابھی جج کے گھرمیں ان کے خاندان کی طرف سے چھوٹی ملازمہ پرہونے والے تشدد کی تکلیف کم نہ ہوئی تھی کہ رانی پورمیں ایک اور دس سالہ بچی کو تشدد کرکے مار دیا گیا جسے دبانے کے لئے اس کو بیماری کی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔

اب فیصل آبا دکی تحصیل میں جڑانوالہ میں مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کرنے پر مشتعل افراد نے عیسائی آبادی میں گھس کر ان کے مقدس مقام چرچ اور کئی گھروں اور سامان کو آگ لگا دی۔

لوگوں نے گھروں سے بھاگ کر جانیں بچائیں اور رات بے سروسامانی میں کھیتوں میں چھپ کر جان بچائی۔ افسوس ناک بات یہ کہ لوگ نہ نکلنے پر مساجد میں اعلانات کروائے گئے۔
ایسی صورت حال آئے روز ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کوئی سیاسی، کوئی مذہبی، کوئی لاثانی، کوئی نسلی، کوئی طاقت کے نشے میں زونبیز بن جاتے ہے۔
جہاں پولیس والا مدعی کی داد رسی نہیں کرتا وہی ججز کی عدالت میں لوگ انصاف کو ترستے ہیں۔ جہاں سیاسی رہنماوں کے پیچھے لگے افراد نے زونبیز کی شکل اختیار کر لی ہے وہی وڈیرے، پیر اور مولوی کا کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں۔
چھوٹی بچیاں کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی ہیں تو وہی ملازمت پیشہ چھوٹے بچوں سے غلاموں کی طرح برتاو کیا جاتا ہے۔ امیر ہو یا غریب سب زونبیز کی طرح کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ معاشرے میں انسانی حقوق اسی وقت یاد آتے ہیں جب اپنے ساتھ زیادتی ہو رہی ہولیکن خود ہم دن رات ایسا رویہ اپنائے رکھتے ہیں کہ انسانیت بھی شرما جائے۔ ایک لمحے کے لیے سوچنے کی کوشش نہیں کرتے کہ کہیں غلط کام تو نہیں کر رہے۔
ایسے پر تشدد رویے ہمیں بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ملک میں بے یقینی ایسی کہ غیر ملکیوں کا پاکستان میں آنا اوررہائش اختیار کرنا تو ایک طرف یہاں کے باسی بھاگنے کو تیار رہتے ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں تو انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمیں ایسے واقعات کی مذمت کرنی چاہیے اور اپنے حلقہ احباب میں بھی پر امن رہنے کی تلقین کرنی چاہیے تاکہ معاشرے میں گورنر سلمان تاثیر سے لے کر غیر مسلموں کی بستیوں کو جلانے والے واقعات ختم ہو سکیں اور اقلیت سمیت دیگر پسے ہوئے طبقات کو تحفظ حاصل ہو۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے