کالم

عمر عطا بندیال نامی ایک شخص

ستمبر 17, 2023 3 min

عمر عطا بندیال نامی ایک شخص

Reading Time: 3 minutes

میرا تعلق شہری نہیں بلکہ دیہاتی پس منظر سے ہےاور میں "مخالفین ” کے خلاف اپنا "دھڑا” لےکر چلوں گا.

یہ خوفناک جملہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا کسی ظالم وڈیرے کے منہ سے
نہیں نکلا۔
یہ الفاظ "کچے” کے کسی قانون شکن کے ہونٹوں سے بھی برآمد نہیں ہوئے۔
یہ دشمن داری پر اتراتے اور مونچھوں کو تاؤ دیتے کسی قاتل نے بھی نہیں کہا۔
اور یہ کسی بھتہ خور یا دادا گیر کی بھڑک بھی نہیں تھی۔

بلکہ یہ جملہ اس شخص نے بولا جسے اس بدنصیب وطن میں عدل اور انصاف کا محترم ترین اور اعلی منصب امانت اور دیانت کی سوگند دے کر سونپا گیا تھا.

اور پھر
وہ اپنا "دھڑا” لےکر چلتا اور ہر "مخالف” کو نیست و نابود کرتا گیا.
سب سے پہلے تو اس نے اپنے دھڑے کی تشکیل یوں کی کہ آئین و قانون میرٹ و معیار اور اصول و ضوابط سب منہ دیکھتے رہ گئے۔

دھڑا باز کے دھڑے والے ہمرکاب تھے بھی کون؟
کسی کی قبا پر پانامہ کا کیچڑ لگا تھا۔

کوئی آمرانہ قوتوں کی نمائندگی کرتا رہاز
حتی کہ سہولت کاری سے "ٹرکاں” تک کے معاملات میں لت پت لوگ بھی دھڑے کا حصہ بنتے اور "موگیمبو کو خوش کرتے رہے۔“

دھڑے کو یوں کھل کر سامنے لایا گیا کہ قومی ایشوز پر بنتے عدالتی بینچز میں نہ صرف مستقل نام اور چہرے ہی شامل ہوتے بلکہ دھڑے کی "پالیسی ” کو لےکر چلتے اور حریف و حلیف کے مستقبل کا تعین آئین اور قانون کی بجائے اپنی خواہشات اور مفادات کے مطابق کرتے
انہی دنوں وقت نے وہ منظر بھی دیکھا جب 9 مئی اور کرپشن کیسز کا سامنا کرنے والے عمران خان کو فوری طور پر ایک ایسے پروٹوکول میں جیل سے لایا گیا کہ ریڈ کارپٹ بھی منہ چھپاتا پھرا۔

گڈ ٹو سی یو سے مرسیڈیز گاڑی
، وی آئی پی راہداری سے کورٹ میں داخلے، اعلی درجے کے گیسٹ ہاؤس اور مہمانوں کی خاطر تواضع کے بارے دیے گئے حکم کی کہانی الگ ہے۔

دھڑے کے سربراہ کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ نہ صرف منتخب پارلیمان کے اختیار کے سامنے آستینیں چڑھا کر آیا بلکہ آرٹیکل 63 اے کی چیر پھاڑ کر کے پرویز الہی کو مشکل حالات میں کمک بھی فراہم کر دی اور اسمبلی فلور پر ہاری ہوئی حکومت بھی دوبارہ اس کی جھولی میں ڈال دی۔

دھڑے اور اس کے سربراہ کا کمال دیکھیں کہ دھڑے بندی کی بجائے آئین و قانون کو ترجیح دیتے اپنے ہی رفیق کار اور سینیئر ترین جج جسٹس فائز عیسی کو ان کی اہلیہ سرینا عیسی سمیت اپنے سامنے کٹہرے میں کھڑا کیا۔

اور جب آئین پسند جج اور ان کے خاندان پر لگائے گئے الزامات حقائق کے سامنے دم توڑنے لگے تو دھڑے کے ایک رکن نے بدحواسی میں جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ کو اس حد تک زچ کیا کہ وہ اپنی بے گناہی اور بے بسی کو لیے کٹہرے میں کھڑی رو پڑیں۔

یہ دھڑا باز شخص یہاں تک بھی پہنچا کہ جب اس کی عمر رسیدہ ساس کی وہ آڈیو منظرعام پر آئی جس میں وہ نہ صرف عمران خان کی چاہت میں آئین کی سے غداری یعنی عمران خان کی معزولی کے بعد مارشل لا نہ لگانے پر فوج کو کوس رہی تھی بلکہ اس داماد کو ایک احمقانہ غول کی دعاؤں کا ذکر بھی کھل کر رہی تھی جو داماد آئین و قانون کی بجائے اپنی ساس اور اور اس گمراہ طرز عمل کے ساتھ کھڑا تھا۔

طرفہ تماشا ملاحظہ ہو کہ یہ معاملہ عدالت میں آیا تو باوقار روایت کے مطابق خود کو الگ کرنے کی بجائے اپنے دھڑے سمیت نمودار ہوئے اور اور ڈھٹائی کے ساتھ "دفاعی موچہ” سنبھال لیا.

یاد رہے کہ جسٹس فائز عیسی پر عمران خان کے کیسز سننے کی پابندی لگا دی تھی۔
تا کہ "جانبداری ” کا تاثر پیدا نہ ہو جائے۔

ہٹ دھرمی اور طرف داری اس حد تک تھی کہ عوامی اور قانونی حلقوں کے اس مطالبے کو تو کیا کہ آئین کو بھی روندتے ہوئے جوتے کی نوک پر رکھا کہ آئینی معاملات پر فل کورٹ بنایا جائے۔
یہاں بھی وہ اپنے دھڑے سمیت معاملات نپٹاتے اور آئین و قانون کی بالادستی اور سمت کی بجائے اپنی خواہش اور مرضی کے فیصلے کرتے رہے۔

وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کی حق میں سوموٹو پر سوموٹو لیتا رہا لیکن اسے باجوہ سے فیض حمید اور عمر سرفراز چیمہ سے قاسم سوری تک نہ کوئی آئین کا مجرم دکھائی دے رہا تھا اور نہ ھی آئین و قانون کی پاسداری کا احساس انہیں تنگ کر رہا تھا۔

یہ تھا وہ شخص جسے قسمت عدل و انصاف کی بلند اور محترم ترین منصب تک لے گئی
لیکن وہاں سے وہ جسٹس اے آر کانیلئس جسٹس دراب پٹیل جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسی عزت اور اعتبار کما کر نہیں اترے
بلکہ اس کوچے سے جسٹس منیر مولوی انوارالحق اور ثاقب نثار کی مانند بڑے بے آبرو ہو کر نکلے.

اور ہاں…..اس شخص کا نام عطا بندیال تھا
جس کے نام سے پہلے محترم اور عزت ماب چیف جسٹس جیسے لاحقے لگانا کم از کم میرے لیے ناممکن ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے