اہم خبریں متفرق خبریں

ابصار عالم کے وزارت دفاع کے ملازمین پر الزامات سنگین نوعیت کے ہیں: چیف جسٹس

نومبر 1, 2023 3 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

ابصار عالم کے وزارت دفاع کے ملازمین پر الزامات سنگین نوعیت کے ہیں: چیف جسٹس

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالت کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے سے آگاہ کیا جس پر عدالت کی جانب سے عدم اطمینان کے بعد انہوں نے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کے لیے حکومت کو تجویز دینے کی مہلت طلب کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےسماعت کی۔

جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل بینچ میں شامل تھے۔

اٹارنی جنرل، پیمراکے چیئرمین سلیم بیگ اور سابق چیئرمین ابصار عالم اور وکلاء روسٹرم پر موجود رہے۔

‏ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت دفاع کی نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم نے اپنے حلفیہ بیان میں وزارت دفاع کےملازمین پر سنجیدہ الزامات عائد کیے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کر دی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کینیڈا کی سرزمین پر قتل ہوا انھوں نے کہا ہماری سرزمین پر قتل ہوا، تحقیقات کریں گے، اس واقعہ میں دونوں ممالک کے تعلقات ختم ہونے کا اندیشہ ہے.

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہاں ملک اور دین اسلام کو بدنام کریں کوئی پوچھنے والا نہیں،یہاں کسی کو کوئی پرواہ نہیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا فیض آباد دھرنے کا مقصد حکومت کیخلاف سازش تھی،اصلی مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے ڈرنا نہیں چاہیے.

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جب تک ملک آئین کے تحت نہیں چلے گا لوگوں کی مشکلات حل نہیں ہوں گی.

چیف جسٹس نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے وقت حکومت اچھی تھی یا بری تھی جیسی بھی تھی عوام کے ووٹ سے آئی تھی، قانون میں تبدیلی کو ختم کرنے کے باوجود فیض آباد دھرنا جاری رکھنا عیاں کرتا ہے مقاصد کچھ اورتھے.

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم پاکستان انکوائری آف کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیں گے.

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسے بات نہ کریں، حکومت سے ہدایات لیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ کے لیے مثال ہونی چاہیے کہ اگر ایسا ہوا تو سنگین نتائج ہونگے، ابصار عالم کے بیان حلفی کے تناظر میں تو پھر الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے آزاد نہیں تھے.

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی پاکستانی کینیڈا جاکر احتجاج کر سکتا ہے.

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں کر سکتے. چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن کینیڈا سے تو کوئی یہاں آکر نظام مفلوج کر سکتا.کینیڈا والے کو پاکستان کون لےکر آیا تھا.

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے وفاقی حکومت کی بنائی گئی کمیٹی غیر قانونی ہے، کمیٹی کے ٹی او آر انتہائی وسیع ہیں،ایسے تو سب بری ہو جائیں گے.
کیا حکومت نے لوگوں کو الزامات سے بری کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا. فیض آباد دھرنے سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا لیکن سرکار کو کوئی پرواہ نہیں.

سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواست واپس لینے کے معاملے پر شیخ رشید کو نوٹس جاری کیا جبکہ اعجاز الحق نے عدالتی فیصلے میں حساس ادارے کی رپورٹ کی تردید کی.

اعجاز الحق کے وکیل نے کہا کہ بیان حلفی کے مطابق مظاہرین کی کوئی حمایت نہیں کی تھی، اعجاز الحق اور مظاہرین کے درمیان گٹھ جوڑ کی کوشش جھوٹ پر مبنی ہے.

وکیل نے بتایا کہ اعجاز الحق نظرثانی کے بجائے اپنی ساکھ خراب کرنے پر دادرسی چاہتے ہیں، آئی ایس آئی نے اعجاز الحق کا نام غلط طور پر شامل کیا.

چیف جسٹس نے کہا کہ اعجاز الحق کے والد سابق آرمی چیف تھے.

وکیل نے کہا کہ اعجاز الحق کے والد صدر پاکستان بھی تھے.

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وہ ضیاء الحق کو سابق صدر نہیں مانتا، عدالت میں ایسی غلط بیانی دوبارہ نہیں کرنا.

وکیل نے کہا کہ ضیاء الحق کا نام آئین میں لکھا ہوا ہے.

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ضیاء الحق کا نام آئین سے نکال دیا گیا تھا.

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئین کے تحت صدر پانچ سال کیلئے ہی ہوسکتا ہے، بندوق کی زور پر کوئی صدر نہیں بن سکتا، کیاسابق آرمی چیف کے بیٹے کا نام آئی ایس آئی نے غلط طور پر رپورٹ میں شامل کیا؟

وکیل نے کہا کہ اپنی پوزیشن واضح کر رہےہیں.

پاکستان کے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے انکوائری کمیشن کی تشکیل زیرِ غور ہے اور اس حوالے سے تجویز حکومت کو دیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جانی تھی جس پر اُن سے نوٹیفیکیشن کا پوچھا گیا تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

عدالتی بینچ کے سوالات کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ حکومت کو انکوائری کمیشن کی تشکیل کی تجویز دیں گے اس وقت تک اُن کو مہلت دی جائے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے