اہم خبریں کالم

جہاں افیون اگتی ہے – تبصرہ و تلخیص

نومبر 27, 2023 5 min

جہاں افیون اگتی ہے – تبصرہ و تلخیص

Reading Time: 5 minutes

ہاجرہ خان(تبصرہ و تلخیص: معاذ بن محمود)

حصہ اول

ہاجرہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی پشتون خاتون ہیں۔ ان کے والد لبرل تھے اور اپنی سوسائیٹی کے نارمز کے خلاف تھے۔

ہاجرہ نے کوئٹہ کے امریکی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد والد کے کاروبار کے سلسلے میں کراچی جانا پڑا۔ ہاجرہ چھ برس کی عمر میں جنسی ہراسگی کا واقعہ بتاتی ہیں۔ ان کے پڑوس میں موجود بنگالی باورچی کی جانب سے ان پر ایک سے زیادہ بار جنسی ہراسانی کی گئی۔

ہاجرہ کی والدہ مذہبی فکر رکھنے والی خاتون تھیں جنہیں اپنی بیٹی سے چڑ تھی۔ ان کے والد نے لبرل فکر کے مالک ہونے کے ناواقف ہمیشہ ہاجرہ کو لڑکا مان کر پالا۔ ہاجرہ نے کراچی سے اے لیول کیا اور اس کے بعد ڈبلن روانہ ہوگئیں۔ ان کے نزدیک کوئٹہ کا ماحول انتہائی دقیانوسی اور گھٹن سے بھرپور تھا۔ یہاں بچوں کا ہر طرح بشمول جنسی استحصال ہوا کرتا جس کے باعث ان کے لیے واحد راستہ پاکستان ہی سے دور چلے جانا تھا۔

ہاجرہ اپنی کتاب میں مختلف باتیں لکھتی ہیں جن میں کچھ میں تضاد بھی دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً پہلے پانچ حصوں میں متواتر اپنے والد کی تعریف کرنے کے بعد چھٹے حصے میں وہ کچھ یوں لکھتی ہیں کہ میرے والد دیگر پشتونوں کی نسبت مجھے بہت آزادی دیتے تھے جبکہ میری ماں ناصرف مجھے بدصورت کہتی تھیں بلکہ مجھ پر بچپن میں تشدد بھی کرتی تھیں۔

اس کے باوجود جب نبیلہ بیوٹی پارلر کے لیے فوٹوشوٹ کروانے کی باری آئی تو ہاجرہ کے بقول اماں نے کہا فوٹوشوٹ کروا لو بس ابا کو پتہ نہ چلے۔

آگے چل کر رقم طراز ہیں کہ “میرے والد نے مجھے باہر بھیجا، مجھ سے وعدہ کیا کہ رہائش کا کرایہ بھیجوں گا۔ تاہم والد نے ٹیوشن فیس نہ دے کر مجھے دھوکہ دیا۔ “

ہاجرہ نے کتاب کے پہلے چند حصوں میں عمران خان کو پہلی بار دیکھنے کا منظر بھی تفصیل سے بتایا۔ اس وقت ہاجرہ دس برس جبکہ عمران خان اکتالیس برس کے تھے۔ ان کے مطابق عمران خان اس وقت بھی ایک زور دار شخصیت تھے جو تب موجود باقی تمام کرکٹ ٹیم سے الگ تھے۔

آئرلینڈ میں اپنے قیام سے متعلق ہاجرہ بتاتی ہیں کہ میں مردوں سے دور رہتی تاہم میری محبت کی زندگی نے اس وقت نیا موڑ لیا جب مجھے ایک آئرش کلاس فیلو سے محبت ہوئی۔ وہ مجھے کہتا کہ تمہاری آنکھیں حیرت انگیز ہیں جن میں چمکتی معصومیت کے ساتھ دمکتی شرارت کی جھلک نظر آتی ہے۔ میرے لیے یہ مجھ سے کہی جانے والی رومانوی ترین بات تھی۔ تاہم وہ لڑکا ہمارے درمیان کچھ تفریقات نہ دیکھ پایا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں گھر میں کپڑے نہیں دھوتی تھی کیونکہ اس کام کے لیے ملازم موجود تھے تو اس نے مجھے بگڑا ہوا لاڈلہ کہا۔ جب میں نے اس کے سامنے اپنے ورجن ہونے کا اعتراف کیا اور کہا کہ یہ اس کے لیے حیرت سے ششدر ہونے کا مقام ہے۔ اس نے یہ کہہ کر فوری طور پر قطع تعلق کر لیا کہ اس کے لیے یہ سب بہت شدت کا حامل ہے۔ میں تباہ ہو کر رہ گئی۔

آگے ہاجرہ بتاتی ہیں کہ وہ خود کو اپنے gay دوستوں کے ساتھ ہمیشہ محفوظ محسوس کرتی تھیں۔ وہ سوچا کرتیں کہ انہیں اپنائیت کا احساس نسوانیت رکھنے والے مردوں سے ہوتا ہے۔

ڈبلن کے کالج میں نو برس گزارنے کے بعد بالآخر انہیں والد سے بغاوت کی پاداش میں فائنل امتحانات میں بیٹھنے سے روک دیا گیا اور آخرکار 26 برس کی عمر میں انہیں واپس آنا پڑا۔

ان کے مطابق اس ناکامی کی وجہ والد کی جانب سے ان کے باغی پن کا نتیجہ تھا۔ نو برس بعد بغیر کسی ڈگری، ملازمت اور پیسے کے انہیں ناکام ہو کر واپس اسی پاکستان لوٹنا پڑا جہاں سے وہ باہر نکلی تھیں۔ اس وقت ان کے پاس فلم سازی سے محبت کا انتخاب ہی باقی بچا تھا تاہم دو مضامین میں فیل ہونے کے بعد فلم سازی کیسے ہوگی یہ معلوم نہ تھا۔

نو برس بعد پاکستان پہنچ کر ہاجرہ نے مکڈونلڈ میں ایک خاتون کو کام کرتے دیکھا جس پر انہیں نے اپنی والدہ کے سامنے حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے پوچھا پاکستان میں آخر یہ تبدیلی کیسے آئی جس پر والدہ کا مسکراتے ہوئے جواب “پرویز مشرف” تھا۔ اس وقت تک مشرف کا دور ختم ہوچکا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد واپس اقتدار میں آچکی تھی۔ ہاجرہ کے مطابق مشرف کی سیاست سے اختلاف رکھنے اور ان کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو بیچے جانے کے باوجود وہ مشرف کو معاشی ایجنڈے کا حامل سمجھتی ہیں۔

ہاجرہ کے نزدیک پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے بڑھ کر حقوق نسواں کے لیے کام کیا، تاہم بے نظیر بھٹو کو اگر موقع ملتا یا وہ چاہتیں تو اس سے کہیں زیادہ کام کر سکتی تھیں۔ ہاجرہ کے مطابق مشرف نے آزاد میڈیا اور مدارس کی سرکوبی کی حوصلہ افزائی کی اور بہتر معیشت میں بھی کامیابی حاصل کی۔

ملک میں لبرل رویں کی حوصلہ افزائی کے باعث پرائیویٹ میڈیا، ٹی وی اور فیشن انڈسٹری کو دیکھ کر انہوں نے ماڈلنگ میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا جس میں ان کے گھر والے ان کے خلاف رہے۔ ان کی والدہ نے روتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے پوری کوشش کی کہ وہ ان کی مالی مدد جاری رکھ سکیں تاہم اس میں ناکامی کا ذمہ دار وہ اپنے والد کو نہیں ٹھہرا سکتیں۔

ہاجرہ نے اپنے ایک سابقہ پاکستانی دوست سے کچھ رقم قرض لے کر ماڈلنگ میں قدم رکھا۔ یہاں انہیں اکثر ان کے وزن، دانتوں، ناک اور جلد کو لے کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ ماڈلنگ میں پہلی پرفارمنس میرلن منرو کو خراج تحسین پیش کیے جانے والے ایک ایونٹ پر کی جس پر انہیں پہلی تنخواہ ملی۔

ان کا خیال تھا کہ اب انہیں مزید کام ملے گا تاہم انہیں معلوم ہوا کہ پاکستان میں میرلن منرو کی طرح چھوٹے بالوں کی نسبت لمبے بال پسند کیے جاتے ہیں۔ ہاجرہ کسی نہ کسی طرح کام کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ دانتوں، ناک اور جلد کی سرجری کروا کر اپنا کانفیڈینس بڑھاتی رہیں۔

اسی درمیان گلی کوچوں میں پھرنے والے کتے بلیوں کے مارے جانے پر ہونے والے احتجاج کے سلسلے میں ایک نسوانی طبیعت رکھنے والے میک اپ آرٹسٹ سے ملاقات ہوئی جن کے ساتھ ان کی فوری طور پر دوستی ہوگئی۔

اس شخص کا نام عثمان تھا۔ ہاجرہ کے مطابق عثمان کے خوش مزاج ہونے کے باوجود اس نے اپنے نظریات اور اپنی طبیعت میں موجود نسوانیت کو ظاہر کرنے کے باعث بہت نقصان اٹھایا۔ عثمان کی کم عمری میں ان کی والدہ کی وفات کے بعد انہی وجوہات کی وجہ سے اس کے بھائی اکثر اسے مارتے پیٹتے رہتے تاہم وہ تکلیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے الٹا ان باتوں پر ہنسا کرتا۔

ہاجرہ اور عثمان اس حد تک اچھے دوست بن گئے کہ ایک دن عثمان کے والد نے ہاجرہ کو فون کر کے کہا کہ وہ چاہتے ہیں ہاجرہ ان کے بیٹے کو سمجھائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ عثمان پانچ وقت کا نمازی ہوجائے، بینک میں ملازمت کرے، کسی لڑکی سے شادی کرے اور شراب نوشی ترک کر دے۔ اس پر ہاجرہ نے باپ بیٹے کا مزاج کوسوں دور محسوس کیا اور افسوس کے ساتھ عثمان کے والد کو بتایا کہ یہ ممکن نہیں۔

ہاجرہ کے مطابق پاکستان میں ہم جنس پرستی کا اگرچہ نام تک نہیں لیا جاتا تاہم یہ بہت عام ہے۔ ہمارے یہاں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو اس حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے کہ ۲۰۱۱ تک ان کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک جاری کر کے نہیں دیا جاتا تھا۔ پروفیشنل لائف میں اس قدر ابتر سلوک کے باعث خواجہ سرا جسم فروشی اور بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

ہاجرہ لکھتی ہیں کہ عثمان کی بھرپور حوصلہ افزائی ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی۔ آہستہ آہستہ انہیں کام ملنا اور زیادہ ہوگیا اور پھر ایک دن انہیں ٹی وی پریزینٹر کی آفر آئی۔ یہ وہ دور تھا جب پرویز مشرف کی جانب سے تفریحی اور فیشن پر مبنی چینلز میں سرمایہ کاری کی جا رہی تھی۔ اس وقت انہیں فیشن ٹی وی نامی چینل میں بطور اردو اور انگریزی پریزینٹر موقع ملا۔ انہیں احساس ہوا کہ حالات کافی حد تک بدل چکے ہیں۔ اب کہیں زیادہ خواتین کام کرتی نظر آتی ہیں۔ جہیز کا تصور بدل چکا تھا۔ ملک کو مزید کام کرنے والی خواتین کی ضرورت تھی اور اب خواتین کا شادی کے بعد بھی کام جاری رکھنا معاشی طور پر بھی بہتر سمجھا جانے لگا تھا۔

ہاجرہ کے مطابق ان کے والدین بھی اب پرسکون تھے۔ ہاجرہ معاشی طور پر مضبوط ہو رہی تھیں جبکہ ان کے والدین نے معاشی استحکام کے لیے ہمیشہ جد و جہد ہی کی تھی۔ یوں باوجود اس کے کہ دور کے رشتہ دار اکثر اوقات ان کے والدین کو ان کے میک اپ یا لباس کے بارے میں فون کرتے رہتے، ان کے والدین ہاجرہ کی آمدنی کے باعث ان کے ماڈلنگ کو پروفیشن کے طور پر اپنانے کا فیصلہ قبول کر چکے تھے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے