یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیل کی جنگی کابینہ میں اختلافات
Reading Time: 2 minutesاسرائیل کی جنگی کابینہ کے رکن نے حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کے حوالے سے حکومت کی حکمت عملی پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف جنگ بندی سے ہی ان کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کابینہ کے رکن اور سابق آرمی چیف غادی آئیزکوت کا حالیہ تبصرہ چار ماہ سے جاری جنگ کی سمت پر اعلیٰ اسرائیلی حکام کے درمیان تازہ ترین اختلافات کی علامت ہے۔
غادی آئیزکوت نے پہلی مرتبہ عوامی سطح پر دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ جنگ بندی کے علاوہ کسی اور طریقے سے یرغمالیوں کی رہائی کا دعویٰ محض ’غلط تاثر‘ کو پھیلانا ہے۔
پانچ رکنی جنگی کابینہ کی سربراہی کرنے والے وزیراعظم نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ صرف جنگ کے ذریعے ہی یرغمالیوں کو رہا کروایا جا سکتا ہے۔
غادی آئیزکوت کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب دوسری جانب یرغمالیوں کے اہل خانہ کی طرف سے احتجاج زور پکڑ رہا ہے۔
ایلی شتیوی جن کا 28 سالہ بیٹا ایڈن 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے بعد سے حماس کی قید میں ہے، نے نیتن یاہو کی ذاتی رہائشگاہ کے باہر جمعے سے بھوک ہڑتال شروع کر رکھی ہے۔
شتیوی نے کہا ہے کہ وہ دن بھر صرف ایک چوتھائی روٹی کھائیں گے جو یرغمالیوں کی خوارک ہے، جب تک نیتن یاہو ان سے ملاقات پر آمادہ نہیں ہوتے۔
درجنوں کی تعداد میں مظاہرین ایلی شتیوی کے ساتھ اظہار یکجہتی میں احتجاج میں شامل ہوئے۔
غادی آئیزکوت نے اسرائیلی چینل 12 کے ایک تحقیقاتی پروگرام میں مزید کہا کہ ’اسرائیلی یرغمالی صرف ایک ہی صورت میں زندہ بچ سکتے ہیں کہ اگر معاہدہ ہو جائے جو جنگ میں خاطر خواہ وقفے سے منسلک ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ڈرامائی ریسکیور آپریشن کا امکان نہیں ہے کیونکہ یرغمالیوں مختلف مقامات پر پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر کو زیرِ زمین سرنگوں میں چھپایا ہوا ہے۔
خیال رہے غادی آئیزکوت کا بیٹا غزہ میں گزشتہ ماہ دسمبر میں لڑتے ہوئے ہلاک ہو گیا تھا۔
سابق آرمی چیف اور جنگی کابینہ کے رکن نے کہا کہ یہ دعویٰ کہ یرغمالی معاہدے کے علاوہ کسی اور طریقے سے رہا ہو سکتے ہیں صرف غلط تاثر کو پھیلانے کے مترادف ہے۔
غادی آئیزکوت نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ اسرائیلی فوج نے حماس کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔
’ہم نے ابھی تک کوئی سٹریٹیجک کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ صرف معمولی کامیابی ہوئی ہے۔‘
دوسری جانب وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ کا کہنا ہے کہ حماس کی مکمل تباہی تک جنگ جاری رہے گی اور عسکری کارروائی سے ہی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہے۔
تاہم مبصرین نے نیتن یاہو کی حکمت عملی پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں کہ کیا نیتن یاہو کے اہداف حقیقت پسندانہ ہیں۔ ناقدین کے خیال میں نیتن یاہو دراصل حکومتی سطح پر اپنی ناکامی کے خلاف تحقیقات سے بچنے، حکومتی اتحاد کو اکھٹا رکھنے اور انتخابات کو ملتوی کروانے کی کوشش میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
عوامی رائے شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے دوران نیتن یاہو کی شہرت میں کمی آئی ہے جن کے خلاف پہلے سے بدعنوانی کی تحقیقات بھی چل رہی ہیں۔