کمزور سیاست دان کو سزا سے پہلے سزا ہو جاتی ہے: جسٹس اطہر من اللہ
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ جب کوئی سیاست دان کمزور ہو جاتا ہے تو اس کو سزا سے پہلے سزا ہو جاتی ہے.
سنیچر کو ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ملزم کے خلاف کتنے ہی بڑے جرم کا الزام کیوں نہ ہو جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہو وہ معصوم ہوتا ہے.
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آزاد میڈیا تنقید برائے اصلاح کرتا ہے اس سے ہم اپنی اصلاح کرتے ہیں، بحیثیت جج ہم اپنی کوئی ججمنٹ یا کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھ سکتے.
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ پر دو طرح کی تنقید ہوتی ہے، دانستہ طور پر اگر کوئی فیصلہ دے اُس پر بھی تنقید ہوتی ہے اور دوسری میں کسی کو پسند نہیں کرتا اسے قانونی ریلیف دے دیا جائے اس پر بھی تنقید کی جاتی ہے.
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جج کو کسی بھی طرح کی تنقید سے گبھرانا نہیں چاہیے، جج کو بے خوف ہو کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا چاہیے.
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جج جس نے حلف لیا ہوتا ہے وہ تنقید سے ڈر کر فیصلے کرتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے.
جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق 1971ء میں میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان کبھی نہیں ٹوٹتا.
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آزادی رائے حق ہے جج کو تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے، جج کو آزاد ہونا چاہیے سوشل میڈیا کا جج پر اثر نہیں ہونا چاہیے
اظہار رائے بہت بڑی چیز ہے اس کو دبانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیےجو غلط کہیے گا وہ خود بے نقاب ہو جائے گا
آجکل جو ذرائع آ چکے ہیں آپ انفارمیشن کا فلو نہیں روک سکتے.تنقید ہر کوئی کرے لیکن تنقید کے بعد عدلیہ پر اعتماد بھی کرے.
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری آدھی سے زائد زندگی ڈکٹیٹرشپ میں گزری جہاں اظہار رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی.
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سزا دینے سے پہلے ہی رائے کے زریعے سزا دے دی جاتی ہے
ایک غریب سے قیدی نے پوچھا کی کیا حالات ٹھیک ہو جائیں گے.میں نے پوچھا کہ تم بتاؤ کہ کیا ہمارے اقتدار اصولوں پر ہیں ، اس نے کیا کہ یہ سچائی کا دور نہیں رہا
سچ کا سب کو پتا ہے مگر 75 سالوں سے سچ چھپایا جارہا ہے