کالم

گرفتاری برائے انکوائری؟

فروری 27, 2024 3 min

گرفتاری برائے انکوائری؟

Reading Time: 3 minutes

‏یہ انکوائری کے لیے گرفتاری کیوں ضروری ہوتی ہے؟
جب سیاستدانوں کو ہتھکڑیاں لگا کر میڈیا پریڈ کرائی جاتی ہے تو عوام کو بتایا جاتا ہے کہ عوام کے مینڈیٹ والے یہ سیاستدان آپ عوام کے اصل حاکم نہیں، اسی طرح صحافیوں کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش کرنے میں بھی عوام کو بتانا مقصود ہوتا ہے کہ بہت زیادہ اور سچ بولنے والے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا-

‏جب محض انکوائری کے لیے ہتھکڑی لگے سیاستدانوں اور صحافیوں کو ججوں سے ضمانت تک نہیں ملتی تو عوام سمجھ جاتے ہیں کہ یہ منصف خود ہی قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دینگے، پھر لوگ سوچتے ہیں کہ تھانہ کچہری کے چکروں کی بجائے غنیمت ہے کہ گھروں میں دبک لے بیٹھا جائے، ماضی کے ڈکٹیٹر حضرات اور ان کے بوٹ چاٹ حواری سیاستدانوں کو عقل ہوتی تو وہ بھی بغیر کسی ہم وطنو والی تقریر یا پی سی او کہ ہی وہ سب کچھ کر لیتے تو جو آج ہو رہا ہے۔

‏مقصد قانون پر عملدرامد نہیں عوام کو محض خوفزدہ کرنا ہے۔ اگر نئے قانون کی پاسداری ہوتی تو مہذب معاشروں میں محض ایک انکوائری کے لیے سیاستدانوں یا صحافیوں کو جیلوں میں کیوں ڈالا جاتا، ہمارے ادارے اتنے نالائق اور منصف اتنے کمزور ہیں کہ سرکار کے تفتیشیوں کے پاس ثبوت ہوتے ہی نہیں اور جب ہوں تو انہیں پیش کرنے کا ڈھنگ نہیں اور اگر پیش ہو جائیں تو ہمارے منصف کے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جو کسی بھی ملزم کو دی گئی سزا کا ٹھوس جواز دے سکیں۔ تو آخر میں طے یہ ہوتا ہے کہ بندے کو رات کے اندھیرے میں پکڑو، جیل میں ڈالو، ہتھکڑی لگا کر اُس کی میڈیا پریڈ کروا کر خوب تذلیل کرو، اور اہل خانہ کو اذیت دے کر اُن پر گھریلو دباؤ میں اضافہ کرو اور کچھ عرصے بعد منصفوں کے تعاون سے ایسا کیس چلاؤ کہ ملزم وکیلوں کی فیس اور ججوں کا دم بھرتے بھرتے گذر جائے۔

‏اگر یہ سب سچ نہیں تو آخر کوئی جج یہ بنیادی سوال تفتیشی اداروں سے کیوں نہیں پوچھتا کہ بھائی کئی کئی گھنٹے تفتیش میں تعاون کرنے والے کسی بھی صحافی یا سیاستدان کی گرفتاری کیوں ضروری ہے.

نیب کے کیس میں جسٹس مقبول باقر نے لکھا تھا کہ لوگوں کو ہتھکڑیاں لگانے اور جیل میں ڈالنے کا مقصد اُن کی تذلیل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

تفتیشی اور جج دونوں جانتے ہیں کہ جرم ثابت کرنے اور سزا تحریر کرنے کے لیے درکار قابلیت اُن کے پاس نہیں ہوتی، اور دستیاب قابلیت ایسی ہے کہ اپیلوں میں سزا کبھی برقرار رہ ہی نہ سکے گی۔

‏اِس ریاست کی بے حسی دیکھیں کہ قاتلانہ حملوں کی شکار سیاستدانوں اور صحافیوں کو جیلوں میں ڈالنا آسان ہے مگر سیاستدانوں اور صحافیوں کے قاتلوں اور ان پر حملہ آور ہونے والوں کو نوٹس دیتے بھی اِن کی "کانپیں ٹانگتی” ہیں۔

‏ہم نے عدالتوں میں لیکچر سنے کہ توہین عدالت کا معاملہ ملزم اور عدالت کے بیچ ہوتا ہے مگر اب لگتا ہے کہ عدالتوں نے اپنی عزت و وقار کے تحفظ کا ٹھیکہ بھی اُن سرکار کے اداروں کو سونپ دیا ہے جو پہلے ہی حکومت کی عزت کے تحفظ کے ٹھیکے دار ہیں۔
اگر آئین کی شق ۲۰۴ میں درج توہین عدالت کے عدالتی اختیار کو کوئی جج آؤٹ آف فیشن سمجھتا ہے تو پولیس اور ایف آئی اے کے ذریعے عدالت کی عزت کا دفاع کون سا فیشن ہے؟ کسی ایف آئی اے یاٹرائل جج کی جرات ہو گی کے چیف جسٹس پر تنقید کے خطرناک ملزم کی ضمانت لے یا اُسے با عزت بری کردے؟

‏اور پھر جج اپنی عزت کے رکھوالے پولیس اور ایف آئی اے جیسے اداروں کے خلاف کسی شھری کی شکایت کیونکر سنیں گے؟ اور اگر کسی جج نے ایسا کیا تو پھر سوشل میڈیا پر اُس کی خیر نہ ہو گی اور سرکار کی دلیل ہو گی کہ جناب آپ قانون اور بنیادی حقوق سے تھوڑی نظریں پھیر لیں تو ہم دیکھتے ہیں یہ لوگ کسی جج بارے ایسی بات کیسے کرتے ہیں۔
تو سلسلہ کہاں جا کررُکے گا اور کیا آخر میں ہماری عدالتیں اپنی عزت اور وقار کے نام نہاد رکھوالوں کی یرغمال نہیں بن جائیں گی؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے