یہ بھی ایک تہوار ہے، انڈین الیکشن میں ووٹرز کو شدید گرمی کا سامنا
Reading Time: 2 minutesلاکھوں انڈین شہری عام انتخابات کے چھٹے مرحلے میں ووٹ ڈال رہے ہیں، جہاں اپوزیشن اتحاد ہندو قوم پرست جماعت کے وزیراعظم نریندر مودی کو مسلسل تیسری مدت کے لیے وزیراعظم بننے سے روکنے کی کوشش میں ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سات بجے ووٹنگ شروع ہونے سے قبل بہت سے لوگ پولنگ سٹیشنوں پر قطار میں کھڑے تھے تاکہ وہ خود کو دھوپ کی شدت سے بچا سکیں۔
انڈین دارالحکومت میں دوپہر کے وقت درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا۔
ایک گھریلو خاتون لکشمی بنسال نے کہا کہ گرمی ہونے کے باوجود لوگ عام طور پر خریداری کے لیے باہر جاتے ہیں اور یہاں تک کہ ایسی گرمی میں تہواروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔
بنسال نے کہا کہ ’یہ (انتخاب) بھی ایک تہوار کی طرح ہے، اس لیے مجھے اس گرمی میں ووٹ ڈالنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔‘
الیکشن حکام نے کہا ہے کہ ووٹرز کے لیے پنکھوں، ٹینٹس اور پانی کا بندوبست کیا گیا ہے۔
نئی دہلی کے سات حلقوں سمیت 58 حلقوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔
یکم جون کو بقیہ 57 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہو گی جس کے بعد چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے انتخابات مکمل ہو جائیں گے۔ ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہو گی۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی سابق وزیراعلٰی محبوبہ مفتی نے اپنے حامیوں کے ساتھ احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے ان کی پارٹی کے متعدد کارکنوں کو پولیس نے حراست میں لیا ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی جو ضلع اننت ناگ راجوری سے الیکشن لڑ رہی ہیں، نے کہا کہ انہوں نے انتخابی عہدیداروں سے رابطہ کر کے شکایت درج کرائی ہے۔
ریاست مغربی بنگال میں آل انڈیا ترنمول کانگریس پارٹی کے کارکنوں نے مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار اگنی مترا پال کی گاڑی کو اس وقت روک دیا جب وہ میدنی پور ووٹ ڈالنے کے لیے جا رہی تھیں۔ دونوں پارٹیاں ریاست میں حریف ہیں اور ان کے کارکنان اکثر سڑکوں پر تصادم کرتے ہیں۔
ان انتخابات کو انڈیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے اور یہ ملک میں مودی کے سیاسی غلبے کا امتحان بھی ہے۔ اگر مودی جیت جاتے ہیں تو وہ ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے بعد تیسری مدت کے لیے اقتدار سنبھالنے والے دوسرے انڈین رہنما ہوں گے۔
انتخابات کے گزشتہ پانچ مرحلوں میں توقع سے کم ٹرن آؤٹ کے بعد دونوں فریق الیکشن کے نتیجے کے بارے میں اندازے لگا رہے ہیں۔
زیادہ تر پولز سروے کے مطابق مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابات میں جیت جائے گی۔
تاہم سیاسی تجزیہ کار رشید قدوائی کا کہنا ہے کہ ’جب انتخابات شروع ہوئے تو ان میں ایک پارٹی کی کامیابی نظر آ رہی تھی اور مودی آگے بڑھ رہے تھے لیکن اب ہم تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ اپوزیشن توقع سے بہتر کام کر رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مودی کی پارٹی مضطرب دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مودی کو مسلم مخالف بیان بازی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔‘
مودی نے انتخابی مہم میں غربت کے شکار افراد کی مالی مدد، فری ہیلتھ کیئر، گھروں میں بیت الخلا بنانے اور خواتین کو مفت یا سستے گیس سلینڈر فراہم کرنے کا دعویٰ کیا۔