اہم خبریں کالم

دینی مدارس میں جدید مضامین کی تدریس کے کامیاب تجربات

مئی 27, 2024 4 min

دینی مدارس میں جدید مضامین کی تدریس کے کامیاب تجربات

Reading Time: 4 minutes

امتیاز احمد وریاہ
حالیہ برسوں میں دینی مدارس میں جدید تعلیم کی تدریس کے تین،چار کامیاب تجربات کیے گئے ہیں مگر ان کے بارے میں بہت کم لوگ آگاہ ہیں۔اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ ان مدارس کی عصری علوم کے میدان میں امتحانی کامیابیوں کو نمایاں طور پر اجاگرنہیں کیا گیا ہے اور دوسرا ہمارے یہاں دینی مدارس کے ناقدین کی مثبت پہلووں پر کم ہی نظر آتی ہے۔ وہ ہمہ وقت ان کی کسی معمولی لغزش کی تلاش میں ہوتے ہیں تاکہ اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاسکے اور دین پسندوں کے لتے لیے جاسکیں۔اہلِ نظر کے نزدیک یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں کیونکہ راسخ العقیدہ مسلمانوں کو ہدفِ تنقید بنانے والوں کا گلشن کا کاروبار اسی سے خوب چلتا اور بعض کی تو روٹی روزی بھی اسی میں لگی ہوئی ہے۔اہلِ مغرب کے دریوزہ گر اور استعمار کے بے دام اور با-دام غلام اس پر مستزاد ہیں ۔ وہ ان کی خدمات بجالانے اور ان کے پروپیگنڈے کی تشہیر کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔جن مدارس نے حالیہ برسوں میں اپنے ہاں جدید تعلیم کی تدریس کا اہتمام کیا ہے۔ان میں ایک اسلام آباد میں بھارہ کہو سے ذرا آگے سترہ میل کے مقام پر واقع ادارہ علوم اسلامی ہے۔ اس ادارے میں درس نظامی کے ساتھ بی اے تک تعلیم دی جاتی ہے اور داخلے کا کڑا معیار مقرر ہے۔ ہر سال مختلف درجات میں 70 فی صد سے زیادہ نمبروں والے طلبہ کو داخل کیا جاتا ہے ۔ اس ادارے کے طلبہ فیڈرل بورڈ اسلام آباد کے زیراہتمام میٹرک اور ایف اے کے امتحانات میں ہرسال نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں۔اس کی تصدیق کے لیے فیڈرل بورڈ کا گذشتہ بیس سال کا ریکارڈ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔اس ادارے کے طلبہ کا ہرسال بی اے اور درس نظامی کا نتیجہ بھی شاندار ہوتا ہے۔ دوسرا ادارہ جامعہ بیت السلام تلہ گنگ (اور کراچی) ہے۔اس ادارے میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ او اور اے لیول کی تعلیم دی جاتی ہے اور میٹرک ،ایف اے کے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں،طلبہ کو انگریزی اور عربی زبانوں میں تحریروتقریر کا ماہر بنایا جاتا ہے۔اس کے سالانہ امتحانی نتائج بھی شاندار ہوتے ہیں۔اس سال وفاق المدارس کے درس نظامی کے مختلف درجوں کے امتحانات میں جامعہ بیت السلام کے طلبہ نے پنجاب بھر میں دس سے زیادہ پوزیشنیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا ادارہ جامعۃ الرشید کراچی ہے۔یہاں بھی درس نظامی کے ساتھ جدید تعلیم کی تدریس کا اہتمام ہے اور طلبہ کو انگریزی اور عربی زبانوں میں تقریر اور تحریر میں طاق بنایا جاتا ہے۔جامعۃ الرشید کراچی کی کامیابی کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس نے وفاق المدارس سے اپنی راہیں جد ا کرلی ہیں اور اس کے ہاں اپنے مرتب کردہ نصاب کے مطابق سالانہ امتحانات ہوتے ہیں۔

مذکورہ تینوں اداروں میں طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کی جاتی ہے ۔انھیں عالم باعمل بنانے پر زوردیا جاتا ہے اور اسی پہلو کے مد نظر تعلیمی کے ساتھ ساتھ ہم نصابی اور غیرنصابی سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔اب ان تینوں اداروں کے طلبہ کی شاندار تعلیمی کارکردگی دوسرے تمام دینی مدارس کی کارکردگی اور وہاں کے تدریسی ماحول پر ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ تمام طلبہ میں ذہنی استعداد کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہے ۔بس ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور انھیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی ذہنی استعدادوصلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔وہ کسی سے کم نہیں ، وہ سب کچھ کرسکتے ہیں اور وہ کمپیوٹر سمیت تمام سائنسی ، حیاتیاتی اور تحقیقی علوم وفنون پڑھ اور سیکھ سکتے ہیں اور ان میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

راقم الحروف ذاتی تجربے کی بنا پر یہ کہ سکتا ہے کہ دینی مدارس میں طلبہ کے وقت کا بہت ضیاع کیا جاتا ہے اور وہ آٹھ سال کے دورانیے میں درس نظامی کے ساتھ مزید بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مگر انھیں درس نظامی میں شامل کتب ہی کا اسیر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر کوئی طالب علم اپنے طور پر مزید کتب پڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔اس کا انداز ہ سوشل میڈیا پر ایک حالیہ مباحثے سے کیا جاسکتا ہے۔

حالیہ دنوں میں وفاق المدارس کے نصاب میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی (المعروف علی میاں) رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب کو شامل کرنے پر عجیب وغریب ردعمل دیکھنے کو ملا اور وہ مناقشہ برپا ہوا ہے کہ اس سے ایک تو ہمارے بزعم خویش دینی طبقات سے تعلق رکھنے والے بعض بزرجمہروں کی علمی قلعی کھل گئی ہے اور یہ پتا چلا کہ وہ علم وعرفان اور سوچ وفکر کی کس سیڑھی پر کھڑے ہیں؟سوشل میڈیا باالخصوص فیس بُک پر طوفان بدتمیزی برپا کرنے والوں کو بلاتخصیص اخلاقیات کی کلاسوں میں داخل کرنا چاہیے۔ایسے کج بحثی خواہ دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں ، جماعتی ہو، بریلوی یا اہل حدیث، سبھی اخلاقیات کے معاملے میں فارغ ڈاٹ کام نظر آئے ہیں۔بعضوں نے تو خود حضرت مولانا علی میاں کی ذات گرامی پر انتہائی رکیک ،سوقیانہ اور جاہلانہ تبصرے کیے ہیں۔ ارے میاں! تم کیا جانو ،ان کا کیا علمی مقام ومرتبہ ہے۔

دراصل یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ مفت بر قسم کے عقل وفہم سے عاری لوگ کسی دینی علمی شخصیت کے فکر وفن پر تبصرہ کرنے کے بجائے اس کی ذات گرامی ہی پر رکیک حملے شروع کردیتے ہیں۔آج کل ایسے بدتمیزوں کے سرخیل اور امام مرزا جہلمی صاحب ہیں اور وہ کم وبیش روزانہ ہی ازکار ِرفتہ موضوعات پر ڈگڈگی بجانے کے لیے یوٹیوب پر ایک نئی وڈیو کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ موصوف ایسے ایسے موضوعات پر گل افشانی گفتار کے جوہر دکھاتے ہیں کہ جن کا ایک عام آدمی کی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں اور ان موضوعات کا دین کے مبادیات سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ان کے تمام تر مباحث "افضلیت” کے گرد گھومتے ہیں،”تلبیس ابلیس” کا فن انھیں خوب آتا ہے۔چناں چہ وہ پاکستانی قوم کواپنے ”ملفوظات ِعالیہ” سے خوب محظوظ اور مستفیض کررہے ہیں۔

اب تو خیر سے ٹی وی چینلوں نے بھی ان کے افکار ِعالیہ کی تشہیر کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور ہمارا کوئی نہ کوئی مایہ ناز اینکر ان سے ہم کلام ہونے کے لیے پنجاب کے جہلم شہر میں واقع ان کی ”اکادمی” میں آن موجود ہوتا ہے۔

ارے اللہ کے بندو! دین بہت سادہ ہے۔اس کی تعلیمات بھی سیدھی اور واضح ہیں۔عوام الناس کوفروعی مسائل یا تاریخی بھول بھلیوں میں الجھانے کے بجائے درست معلومات سے آگاہ کرو اور بالخصوص ان کی دینی واخلاقی تربیت پر توجہ مرکوز کرو۔جن لوگوں کو حلال وحرام کی تمیز نہیں۔بنیادی عقائد کا علم نہیں۔ ان کا ناپ تول پورا ہے اور نہ وہ معاملات میں سیدھے ہیں تو ایسے لوگوں کو اختلافی مسائل اور فتنہ پروری کا باعث موضوعات میں الجھانے کا فائدہ؟ سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ ایسی ہی لایعنی بات چیت اور مباحث کے حق دار ہیں یا انھیں میڈیا پر دینی ودنیوی لحاظ سے کچھ مفید معلومات بھی دستیاب ہونی چاہییں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے