اخلاقی پوزیشن پر میا خلیفہ احترام کی مستحق
Reading Time: 5 minutesمنصور ندیم
میا خلیفہ کا نام بہت سوں کے لیے نیا نہیں ہوگا، وہ متحرک نیلی فلموں کی اداکارہ تھیں، (یہاں تھی سے مراد ہے کہ میا خلیفہ پورن انڈسٹری کو خیر باد کہہ چکی ہیں)۔
اس خاتون کا پورن انڈسٹری سے تعلق کا دورانیہ اتنا طویل مدتی نہیں تھا، جتنی شہرت اسے اس انڈسٹری میں اس کے نام اور جغرافیائی نسبت سے ملی تھی کیونکہ بطور عرب سوسائٹی کے یہ ان چند ناموں میں سے ایک ہے، جس نے اس انڈسٹری کو بطور پیشہ اپنایا۔
میا خلیفہ مشرق وسطی سے تعلق کی بنیاد پر پورن انڈسٹری میں محدود کام کرنے کے باوجود شہرت کا دورانیہ جتنی جلدی طے کر گئیں، اتنے وقت میں اس انڈسٹری سے شہرت بھی نہیں ملتی۔
انڈسٹری کو خیر باد کہنے کے بعد میا حلیفہ نے انٹرویو بھی دیا جس نے خاصی شہرت حاصل کی۔ اور میا خلیفہ نے بطور پروفیشنل ٹی وی اینکر پروفیشنل زندگی شروع کی۔
لیکن دنیا کے لیے ایک بات اُس وقت حیرت کا باعث بنی جب پچھلے برس مئی 2023 میں میا خلیفہ کو برطانیہ کی یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی جانب سے عوامی لیکچر دینے کی دعوت دی گئی۔
اتنی معروف یونیورسٹی کے اس دعوت نامے نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی اور کچھ نے اس کو ایک تضحیک کا معاملہ بنا دیا، کیونکہ بعض لوگوں نے اسےتعلین اور یونیورسٹی کے لیے توہین سمجھا۔
اس کے علاوہ یہ دلیل بھی بہت اہمیت رکھتی تھی کہ میا خلیفہ کے پاس ان یونیورسٹی کے طالب علموں سے کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوگا اور ایسا تجربہ باوقار تعلیمی اداروں کے لیے کیا دلچسپی پیدا کر سکتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ یہ خاتون، جو آج 31 برس کی ہے، اس کے پاس پوری دنیا کے لوگوں کے لیے اس ڈیجیٹل دنیا میں بہت کچھ کہنے کو ہے، اور اس نے یہ کہہ کر بھی بتایا، وہ نئی نسل کے لیے چاہے وہ مغرب سے ہوں، یا دنیا کے مختلف حصوں کے نوجوانوں کے لیے ایک پیغام بن گئی ہے۔
ان لیکچرز میں میا خلیفہ کا سب سے اہم سبق جو نوجوانوں کے لیے شہرت کے سراب کے پیچھے بھاگنے کے خلاف تنبیہ تھی، اور پیسے کا حصول ہی وہ محرک تھا، جس نے اس لڑکی کے لیے، جو خود ابھی جوانی میں داخل ہوئی تھی، وہ اس بدنام زمانہ میدان میں آنے کے لیے قائل ہو گئی۔ میا خلیفہ نے یہ تو قبول کیا کہ اس نے انڈسٹری میں شمولیت اپنی رضامندی سے کی، لیکن دوسری طرف فحش نگاری کی دنیا سے جڑے لوگوں کی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس راستے پر چلتے ہیں، وہ ان کا مکمل انتخاب نہیں ہوتا، وہ معاہدے شدید دباؤ کے تحت ہوتے ہیں، کیونکہ پھر 20 سے زائد افراد کے سامنے ایک لاش کا استحصال کرنے کا انہیں قانونی حق حاصل ہوجاتا ہے۔
برسوں کے یہ ذلت آمیز معاہدے، عورتوں کے جسموں پر اختیار کو مسلط کر کے انہیں اس سب کے لیے محدود کر دیتے ہیں اور انہیں ایسے راستے پر چلنے پر مجبور کرتے ہیں جہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔
اس انڈسٹری میں میا خلیفہ کی شہرت کی غیرمعمولی مثال اس لیے ہے کہ وہ اپنی فلموں میں حجاب پہننے پر اعتراض نہیں کر سکتی تھی، شاید وہ اس مستشرقی دقیانوسی تصورات کی تمام باریکیوں اور جہتوں سے واقف نہیں تھی، لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ لاکھوں لوگوں کے جذبات کی توہین ہے، اس نے یہاں تک کہا کہ اس نے پروڈیوسرز کو بتایا کہ یہ لاکھوں لوگوں کے جذبات کی توہین ہے۔
یہ درست ہے کہ خلیفہ کے پاس اعلیٰ درجے کی ڈگریاں نہیں تھیں، جو اسے یونیورسٹی کے اشرافیہ کے طلبا کو روایتی لیکچر دینے کی اہلیت فراہم کرتی، لیکن اس کے پاس اس سے زیادہ اہم چیز ہے، جو ان مادیت پسند معاشروں میں نوجوانوں کو درکار ہے۔
اس سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی خیال کہتا ہے کہ پیسہ کمانے والا ہر ایک ذریعہ درست ہے، اور اب بھی بہت سے لوگوں کے لیے قابل قبول ہوگا، مگر میا خلیفہ کے لیکچرز کا کمال تھا کہ اس نے اس منطق کو یکسر اخلاقی تبلیغ کے لحاظ سے نہیں، بلکہ نفع و نقصان کی منطق سے بیان کیا ہے کہ اس میدان سے جو نفع حاصل ہو سکتا ہے، وہ زیادہ نقصان سے پورا ہوتا ہے، یہ لیکچرز صرف مغربی دنیا کے باسیوں سے متعلقہ نہیں، بلکہ "ٹک ٹاک” ویب سائٹ، اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر نظر ڈالنے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی لڑکیاں اور خواتین کیا تلاش کر رہی ہیں؟ صرف شہرت اور آسان پیسے کے حصول کے لیے وہ فحش رقص یا غیر اخلاقی مواد فراہم کررہی ہیں۔
مغربی ممالک میں تو سوشل میڈیا نیٹ ورک پر ہی تقریبا پورن انڈسٹری کا سامان میسر ہونا شروع ہوگیا ہے جو لوگ ذاتی دائرے میں کر رہے ہیں، مگر کم ازکم پاکستان میں ابھی تک ان سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر لوگ صریح فحش مواد بنانے کی ہمت نہیں کررہے، لیکن ایسے کلپس ضرور موجود ہیں، جو قریب قریب وہی منظر پیش کرتے ہیں, اور اسی نسبت سے توجہ مبذول کرواتے ہیں۔
میا خلیفہ کے لیکچرز اسی تصور کے بیان پر ہے، کہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جنہیں ان مناظر سے روکا جا سکتا ہے۔
وہ سچائی بیان کی ہے جسے چھپایا نہیں جا سکتا، آج شاید ہی کوئی ملک سوائے اس کے جو ان سائٹس کے ساتھ اخلاقی اقدار کی بنیاد پر سختی سے نمٹتے ہیں اور انہیں اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں، ورنہ میا خلیفہ بھی اسی خیال کے ذریعے آسان پیسہ اور شہرت کی متلاشی تھی۔
فرق یہ ہے کہ اس وقت جب اس نے ایک فحش سٹار بننے اور مشرق وسطیٰ کے اپنے تعارف سے فائدہ اٹھانا قبول کیا۔ اس صنعت کے مالکان نے دیکھا کہ یہ تعارف دکھانے میں پرکشش ہو سکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ میڈیا کو یہ تصور پیش کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ شہرت پیسے اور خوشی سے جڑی ہوئی ہے، اور یہ تصور پھیلانا آسان ہے، لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت پر مبنی ہے جہاں اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افراد بھی بے روزگاری اور پسماندگی کی وجہ سے اس کا شکار ہیں، جب کہ دھوکہ دہی کرنے والے ایسے ادارے، آرٹ کے نام پر غیر مہذب مواد پیش کرنے کے لیے معاشرے میں سرفہرست رہتے ہیں، لیکن اس شعبے سے وابستہ ان افراد کی ذاتی زندگیوں پر ایک نظر ڈالنے سے اس وہم کی حقیقت سامنے آسکتی ہے، اصولوں اور اخلاقیات کو روند کر حاصل ہونے والی شہرت مطلوبہ خوشی فراہم نہیں کرتی، جتنا اس سے افسوس اور فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے، حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ ایسے افراد کو وابستہ لوگوں کو خودکشی کی طرف بھی لے جائے۔
ویسے یہ موضوع حلال حرام اور جائز ناجائز سے بھی آگے جا کر دیکھا جائے تو بھی یہ ایک معاشرتی گمراہی کا ہی تصور ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں بطور سازش بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ایسا توہین آمیز مواد نوجوان اور معاشروں کو کرپٹ کرنے کی نیت سے بنایا جاتا ہے۔
یہ خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سازشی تھیوریاں ہیں اور یہ اتنا برا نہیں ہے ، اس میں مبالغہ ارائی کی جاتی ہے، ویسے اس تنازعے سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ یہ اپنی اثر پذیری میں عوامی حلقوں پر مسلط ضرور ہو چکا ہے۔
اب تو عوامی حلقوں میں اس کام سے وابستہ لوگوں کو ایوارڈز اور شہرت بھی دی جاتی ہے لیکن درحقیقت وہ شہرت بطور آلہ سرمایہ دارانہ نظام کی کرتا دھرتاؤں کی مرہون منت ہے، اور یہ لوگ صرف بطور اوزار استعمال ہوتے ہیں، میری نظر میں یہ آکسفورڈ جیسے تعلیمی ادارے کی کامیابی ہے کہ انہوں نے میاں خلیفہ کے لیکچر کا مقصد فحش نگاری کے میدان کو گلیمرائز کرنے کے بجائے، اس سے وابستہ لوگوں کو اسٹار سمجھانے کے برعکس ایک ایسے فرد کے طور پر میا خلیفہ کو پیش کیا کہ وہ ان تاریک دنیاؤں میں داخل ہوئی تھی، اور کامیابی سے وہاں سے نکلی، لیکن اس دنیا سے نکلنے کی اس نے نفسیاتی طور پر کتنی قیمت ادا کی ہے یہ ایک علیحدہ بات ہے۔
مزید یہ بھی ایک علیحدہ بات ہے کہ اج بھی پوری دنیا میں عرب نژاد میا خلیفہ کا نام پورنوگرافی کی دنیا سے جڑا ہوا ہے کیونکہ اس کا بنایا گیا مواد آج بھی متعدد ویب سائٹس اور پلیٹ فارم سے موجود ہے۔
بہرحال جو لوگ میا خلیفہ کو کسی بھی اخلاقی موضوع پر بات کرنے کے لیے اخلاقی طور پر نااہل سمجھتے ہیں، اس کی حالیہ وجوہات میں فلسطین کی حمایت بھی شامل ہے۔
یہ حمایت میا خلیفہ کو بہت مہنگی بھی پڑی ہے، جس میں اسے کئی الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز کو ان معاہدوں کو منسوخ کرنے پر مجبور کیا گیا، جنہوں نے اس کے ساتھ معاہدے کیے تھے۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ کم از کم میا خلیفہ کی اخلاقی پوزیشن اور پورن انڈسٹری کے نتائج سے حقیقتا آج کی دنیا کے ماہرین تعلیم، دانشور اور انسانی حقوق کے کارکن خوفزدہ ہیں۔
اس معاملے میں اپنی اخلاقی پوزیشن پر میا خلیفہ احترام کی مستحق ہے۔
نوٹ : یہ میری رائے ہے ، ضروری نہیں کہ اس سے سب اتفاق ہی کریں۔