امریکہ نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی ختم کر دی
Reading Time: 2 minutesامریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ اقدام یمن جنگ کو ختم کرنے کے لیے سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کی تین سال پرانی امریکی پالیسی کو تبدیل کرنے کی طرف اشارہ ہے۔
محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے تصدیق کی کہ امریکی انتظامیہ سعودی عرب کو زمین سے زمین پر مار کرنے والے گولہ بارود کی فراہمی پر پابندی کو ختم کرر ہا ہے۔
امریکی عہدیدار نے کہا کہ ’ہم روایتی ہتھیاروں کی منتقلی کی پالیسی کے مطابق ایک عام کیس بہ کیس کی بنیاد پر نئی منتقلی پر غور کریں گے۔‘
کانگریس کے ایک معاون نے بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ نے رواں ہفتے کانگریس کو پابندی ہٹانے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔
ایک ذریعہ نے بتایا کہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت اگلے ہفتے کے اوائل میں دوبارہ شروع ہوسکتی ہے۔ اس معاملے پر بریفنگ دینے والے ایک شخص نے بتایا کہ امریکی حکومت جمعے کی دوپہر کو فروخت کے بارے میں اطلاعات کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ’سعودی اس معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں، اور ہم اپنے معاہدے کے مطابق طے کرنے کو تیار ہیں۔‘
امریکی قانون کے تحت بڑے بین الاقوامی ہتھیاروں کے سودوں کو حتمی شکل دینے سے پہلے کانگریس کے اراکین کو ان کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔
ڈیموکریٹک اور ریپبلکن قانون سازوں نے حالیہ برسوں میں سعودی عرب کو حملہ کرنے والے ہتھیاروں کی فراہمی پر سوال اٹھائے ہیں، جن میں یمن میں اس کی مہم کے وہاں کے شہریوں پر ہونے والے نقصانات اور انسانی حقوق کے متعدد خدشات کا حوالہ دیا ہے۔
لیکن اسرائیل پر حماس کے 7 اکتوبر کے مہلک حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں ہنگامہ آرائی اور یمن میں مہم کے طرزِعمل میں تبدیلی کی وجہ سے اس مخالفت میں نرمی آئی ہے۔
انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ مارچ 2022 کے بعد سے – جب سعودیوں اور حوثیوں نے اقوام متحدہ کی قیادت میں جنگ بندی کی تھی – یمن میں کوئی سعودی فضائی حملہ نہیں کیا گیا اور یمن سے مملکت میں سرحد پار فائرنگ بڑی حد تک رک گئی ہے۔
محکمہ خارجہ کے اہلکار نے کہا کہ ’ہم ان مثبت اقدامات کو بھی نوٹ کرتے ہیں جو سعودی وزارت دفاع نے پچھلے تین سالوں میں اپنے شہری نقصان کو کم کرنے کے عمل کو کافی حد تک بہتر بنانے کے لیے اٹھائے ہیں، جس کا ایک حصہ امریکی ٹرینرز اور مشیروں کے کام کی بدولت ہے۔‘