مطیع اللہ جان کی ضمانت، جج نے کس بات پر افسوس کا اظہار کیا؟
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے صحافی مطیع اللہ جان کی ضمانت کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران چند صحافیوں کی جانب سے پراسیکیوٹر راجا نوید پر جُملے اچھالنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
سنیچر کی دوپہر ضمانت کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جج نے سب سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے گزشتہ روز کے آرڈر کی نقل منگوائی جس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کا ریمانڈ دینے کا فیصلہ معطل کیا گیا تھا۔
جج نے پولیس کے تفتیشی افسر سے کہا کہ عدالتی روبکار کہاں ہیں اور اس حکم نامے کو ریکارڈ کے ساتھ لگا دیں۔ ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج رہا ہوں۔
مطیع اللہ جان کے وکلا نے بتایا کہ انہوں نے ضمانت کی درخواست دائر کی ہے اور آج ہی سماعت کرنے کی استدعا کی ہے۔
جج نے کہا کہ درخواست ضمانت سات صفحات پر مشتمل ہے، نوٹس کر رہا ہوں۔ اور نوٹس کا مطلب ہے کہ پراسیکیوشن نے کوئی دلائل دینے ہیں تو دیں۔
سرکاری وکیل راجا نوید نے کہا کہ وہ ضمانت کی درخواست کی مخالفت کرتے ہیں۔
جج طاہر عباس نے کہا کہ ’میں نے گزشتہ دنوں بھی کہا تھا کہ سکرینوں پر آ کر صحافت کا ستیاناس ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے جمعرات کو عدالت کے باہر صحافیوں کی جانب سے پراسیکیوٹر سے گفتگو کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دیکھ کر افسوس ہوا۔ ’ایک شخص (سرکاری وکیل) کی ڈیوٹی ہے اور آپ عدالت کے باہر پراسیکیوٹر کو یہ کہیں آپ حرام کھاتے ہیں۔ اور اگر آگے سے یہ جواب آئے آپ بھی اپنی سوچوں کو فروخت کر رہے ہیں۔‘
جج نے کہا کہ پراسیکیوٹر تو اپنا کام (وکالت) کرتا ہے، جس نے مقدمہ بنایا اور جس نے وقوعہ رپورٹ کیا حلف اُس نے دینا ہوتا ہے، اور جو گواہ ہے وہ گواہی دے گا۔
’پراسیکیوٹر کی ویڈیو کو وائرل کر رہے ہیں آج اعزاز سید کدھر ہیں۔ میں توقع کر رہا تھا شاہ جی آج معذرت کریں گے، ثاقب بشیر آپ کتنے عرصہ سے عدالت رپورٹنگ کرنے آ رہے ہیں، کبھی اس طرح آپ نے کیا ہے۔‘
جج نے ثاقب بشیر سے کہا کہ ’آپ کچھ نہیں کہیں گے، آپ کے بھائی ہیں۔‘
اس دوران مطیع اللہ جان روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ ’مجھے آج اس واقعہ کا علم ہوا، اس پر عدالت سے معذرت چاہتا ہوں۔‘
عدالت نے قرار دیا کہ 10 ہزار روپے مچلکوں پر ضمانت منظور کی جاتی ہے۔