پاکستان

ماہ رنگ بلوچ سمیت 150 پر مقدمہ، تاحال کسی گرفتار کارکن کو عدالت پیش نہ کیا گیا

مارچ 23, 2025 2 min

ماہ رنگ بلوچ سمیت 150 پر مقدمہ، تاحال کسی گرفتار کارکن کو عدالت پیش نہ کیا گیا

Reading Time: 2 minutes

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے دھرنا مؤخر کرنے کے بعد کوئٹہ میں موبائل فون سروس، انٹرنیٹ اور معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔

اتوار کی صبح کوئٹہ کے سریاب روڈ پر ٹریفک رواں دواں تھی تاہم علاقے میں گزشتہ شام کی ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے آثار دکھائی دیے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان ماہ رنگ، بیبرگ، گل زادی سمیت 150 افراد پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے تاحال گرفتار کارکنوں کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا۔

درج کیے گئے مقدمے کے مطابق ’ماہ رنگ بلوچ نے اپنے دیگر ساتھیوں ہمراہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کی تھی اور دوران پریس کانفرنس میں دہشت گردوں کی تحسین کی اور ان کے بیانیہ کو بڑھاوا دیتے ہوئے کہا کہ سول ہسپتال میں موجود ڈیڈ باڈی کو لے کر جائیں گے جو کہ اطلاع کے مطابق دہشتگردوں کی لاشیں ہیں۔‘

ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ ’ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی پریس کانفرنس کی ایما پر مسمیان1۔ بیبو2 ۔ ڈاکٹر صبیہ 3۔ سعید ہ بلوچ 4۔ ناز جان دختر مولا داد 5۔شاہد علی6۔ شہزاد7۔ قدرت بلوچ8۔ نثار احمد9۔ عزیز کرد 10۔ زاہد علی 11۔ ناصرخان12۔ نوشین قمبرانی بمعہ دیگر نامعلوم اسم مرد خواتین کے ساتھ مل کر جن کی تعداد100سے150تھی نے سول ہسپتال کوئٹہ پر زبردستی دھاوا بول دیا اور ملزمان نے ہسپتال کے مردہ خانہ (مارچری) کے دورازے کو کر ہنگامہ آرائی کرتے ہوئےاندر گھسنے کے بعد جعفر ایکسپریس ٹرین اغواکار دہشتگردوں کی لاشوں کو ہسپتال سے بعداز یرغمال ملازمان سول ہسپتال زبردستی چھین کر لے گئے جو کہ سول ہسپتال میں امانتاً رکھوائی گئی تھی۔‘

پولیس کے مطابق ہجوم بی ایل اے زندہ آباد، آزاد بلوچستان زندہ آباد کے نعرے لگاتے ہوئے دہشتگردوں اور ان کی دہشتگردانہ اور ملک دشمن اقدامات کو سراہتے رہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران تین افراد گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے جن میں ایک کم عمر لڑکا بھی شامل ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے