پیکا میں متنازع ترمیم کے خلاف دائر درخواستیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ نے انسدادِ الیکٹرانک جرائم کے قانون (پیکا ایکٹ) میں متنازع ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں پر جواب جمع کرانے کے لیے حکومت اور متعلقہ محکموں کو ایک اور مہلت دے دی ہے۔
یہ درخواستیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور صحافی حامد میر نے دائر کر رکھی ہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے تمام درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے ریاست علی آزاد، عمران شفیق ایڈوکیٹ اور دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ گذشتہ سماعت پر فریقین کو جواب جمع کرنے کا کہا گیا تھا، پیراوائز کمنٹس کیوں داخل نہیں کیے گئے؟
ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت سے گزشتہ سماعت پر بھی حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کی تھی، عدالت نے مناسب سمجھا تھا کہ پہلے مدعا علیہان کو جواب داخل کرانے کا موقع دیا جائے۔
ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگا لیں کہ تاحال جواب تک داخل نہیں کرایا گیا، اس قانون کا غلط استعمال کر کے ایف آئی آرز درج کی جا رہی ہیں، ہم آج وہ ایف آئی آرز بھی لے آئے ہیں، استدعاہے کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم پر عملدرآمد معطل کر دے۔
وکیل نے کہا کہ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو کم از کم فریقین کو تادیبی کارروائی سے روکنے کا حکم جاری کرے۔
ریاست علی آزاد نے کہا کہ یہ آئینی عدالت ہے جس کے شہریوں کے حقوق کو تحفظ کرنا ہے، حکومت کی اس حوالے سے سنجیدگی دیکھ لیں، لوگوں کے خلاف مقدمے درج ہو رہے ہیں،
عدالت اسٹے دے یا اس پر کاروائی روک دے۔
عمران شفیق ایڈوکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پچھلی سماعت میں کہا گیا تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کے بعد کوئی صحافی خبر ہی نہیں دے سکے گا۔
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، صحافی آج بھی خبریں دے رہے ہیں۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صحافی وحید مراد نے اپنے فیس بک اور ایکس اکاؤنٹ پر ایک سیاست دان کا بیان شیئر کیا تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گئی۔
صحافی یونین کے رہنما آصف بشیر چودھری نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان میں آج جرنلزم کو قابل دست اندازی پولیس جرم بنا دیا گیا ہے۔ ہم اس عدالت کے سامنے بڑی توقعات لے کر آئے ہیں، کم سے کم اتنا ریلیف دے دیں کہ خبر دینے پر کوئی تھانیدار لینے نہ آ جائے۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ بتائیں آپ کے کمنٹس جمع نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہو رہا ہے؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم جلدی جمع کرا دیتے ہیں۔
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ دونوں پارٹیز کو جب تک سن نہ لوں تب تک کوئی آرڈرجاری نہیں کروں گا، اس قانون کو پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے، صحیح یا غلط ہے جوڈیشل ریویو میں اسے دیکھیں گے، جواب آنے دیں۔
عمران شفیق ایڈوکیٹ نے کہا کہ یہی عدالت پہلے پیکا آرڈی نینس کو کاالعدم قرار دے چکی ہے۔
ریاست آزاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ استدعا ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے صحافیوں کے خلاف تادیبی کارروائی سے روک دیں۔
عدالت نے فریقین کو دوبارہ جواب داخل کرانے کے لیے پندرہ دنوں کی مہلت دے دی
ریاست علی آزاد نے استدعا کی کہ عدالت آئندہ تاریخ سماعت خود مقرر کر دے۔
جسٹس منہاس نے کہا کہ کمنٹس آنے دیں، اس کے فوری بعد کیس لگ جائے گا۔