متفرق خبریں

سپریم کورٹ میں بچے کی چیخ

فروری 22, 2018 3 min

سپریم کورٹ میں بچے کی چیخ

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ میں میاں بیوی میں ناچاقی کے بعد بچوں کی حوالگی کے مقدمے کی سماعت کے دوران دس سالہ معصوم بچے نے چیخ کر ماں کے ساتھ جانے سے انکار کرتے ہوئے عدالت کو اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ہائیکورٹ کے بچے کو ماں کے حوالے کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔ درخواست گزار محمد ظہیر کے وکیل محمد اخلاق اعوان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے گزشتہ سماعت کے دوران دیے گئے حکم پر عمل کرتے ہوئے دس سالہ عبدالبصیر کی اس کی ماں سے ملاقات کرا دی ہے، یہ سات دن ماں کے ساتھ رہ کر آیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ علیحدگی نہیں ہوئی درخواست گزار اپنی بیگم کے پاس جائیں اور ان کو منا لیں۔
وکیل اخلاق اعوان نے کہاکہ صلح کیلئے کوشش کی ہے، بچہ ماں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا، اس سے پوچھ لیں۔ اس کی ماں عدالت کے حکم پر عمل نہیں کر رہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ایک موقع دیا تھا کہ صلح ہوسکتی ہے تو کرلیں، اس کا مطلب ہے کہ ماں کے خلاف بچے کو بھرا گیا ہے، ماں تو سراپا شفقت و محبت ہوتی ہے۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق بیوی کے وکیل صابر تنولی نے عدالت کو بتایا کہ بچے عبدالبصیر کو عدالتی حکم پر ماں کے پاس بھیجا مگر ساتھ فون بھی دیا ہوا تھا اور ہروقت فون کرتے رہتے تھے۔ درخواست گزار شوہر کے وکیل نے کہا کہ بچہ پہلے بھی ایک سال پانچ ماہ اپنی ماں کے ساتھ رہ چکا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل کیس کے میرٹ پر دلائل دیں تاکہ ہم فیصلہ کرسکیں۔ وکیل اخلاق عوان نے کہا کہ مسئلہ حل کرنے کیلئے ایک موقع اور دیدیں۔ کمپرومائز کو ایک چانس اور دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہی دومواقع دے دیے، ہم کیس ملتوی کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے،میرٹ پردلائل دیں۔ وکیل اخلاق اعوان نے کہاکہ ماں کے پاس بیٹی ہے، آج تک باپ سے ملاقات نہیں کرنے دی۔ بیوی کے وکیل صابر اعوان نے عدالت کو بتایاکہ محمد ظہیر پانچ سال ہوگئے خرچہ نہیں دیا۔ شوہر کے وکیل نے کہاکہ بچہ ماں سے تنگ آیا ہوا ہے۔
اسی دوران معصوم عبدالبصیر جو باپ کے ساتھ کھڑا تھا، اچانک عدالت میں چیخ پڑا کہ ماں کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔چیف جسٹس نے کہاکہ دیکھیں بچے کے ذہن کو ماں کے خلاف کیا ہواہے۔ عدالت میں عبدالبصیر کی ساڑھے آٹھ سالہ بہن ابیہا فاطمہ دوسری طرف ماں کے ساتھ کھڑی تھی۔ عدالت نے دونوں فریقوں کو ایک ہفتے کا وقت دیاکہ اگر معاملہ حل کیا جا سکتا ہے تو کوشش کر لی جائے۔ عدالت نے درخواست گزار شوہر کے وکیل کی تیاری نہ ہونے پر اس کو پانچ ہزار جرمانہ کیا۔
عدالت کے باہر عبدالبصیر کے والد محمد ظہیر نے پاکستان 24 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شادی میں پسند اور خاندان کی مرضی بھی شامل تھی، ہم لورہ سے تعلق رکھتے ہیں، بیوی این جی او میں کام کرتی تھی اس سے روکا تھا۔ عبدالبصیر کی دادی بھی بچے کہ ماں سے ملانے کے عدالتی حکم پر غصے میں تھیں۔
گزشتہ سماعت کے بعد بچے کی ماں اسما رشید نے پاکستان 24سے بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دیاتھا مگر یہ اپیل میں آگئے ہیں، ان کاکہناتھاکہ عبدالبصیر کو تو اس کا باپ اپنے پاس رکھنا چاہتاہے مگر بیٹی ابیہا کے بارے میں اتنا پرجوش نہیں ہے ۔ اسما رشید کی اس بات میں ان کے والد نے مداخلت کرکے ایسی بات کرنے سے روکا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے معصوم عبدالبصیر اور اس کی بہن ابیہا فاطمہ کو عدالت میں گلے لگنے کیلئے کہاتھا جس میں ابیہا کی گرم جوشی نظر آ رہی تھی مگر عبدالبصیر روٹھا ہوا لگ رہا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کتنے معصوم اور پیارے بچے ہیں، مجھے ان پر پیار آ رہا ہے، ان کے مستقبل کیلئے چاہتے ہیں کہ معاملہ حل ہو جائے، یہ بہن بھائی ہیں مگر ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں۔ وکیل نے قانون کی شق کا حوالہ دینے کی بات کی تو چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر ایسے مقدمات میں قانون ہی بیچ میں لانا ہے تو پھر وہ آپشن بھی موجود ہے مگر بچوں کے مستقبل کی فکر ہے، پھر ان کی فلاح کا حکم نہیں دے سکیں گے۔
(دونوں بچوں کی تصاویر ان کے والدین کی اجازت سے بنائی گئی ہیں۔ ادارہ)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے