مقتول بھائیوں کی بہن عدالت سے مایوس
Reading Time: 3 minutesجب ریاست قانون کی آڑ لیتے ہوئے مقتول بھائیوں کی بہن سے جیت گئی تو باپ بن کر بھائیوں کو پالنے والی غمزدہ بہن نے پنجابی میں کہا، قتل ہون ای کیوں، جے ملک اچ انصاف ہووے، (اگر ملک میں انصاف ہو تو قتل ہی کیوں اور کیسے ہوں) ۔
یہ الفاظ نورحبیب نامی خاتون نے کمرہ عدالت نمبر دو سے باہر نکلتے ہوئے اس وقت ادا کئے جب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے علاقے نوکریاں میں قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنایا ۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق وکیل کہتا رہا کہ مجھے ریکارڈ میں سے کچھ پڑھنے دیں لیکن اجازت نہ ملی ۔ سگے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھنے کے باوجود کچھ نہ کرسکنے والی بے بس بہن پہلے تو کیس کی سماعت کے دوران خاموش ہو کر اپنے وکیل کے دلائل سنتی رہی ۔ وکیل جو کہ لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج مظہر اقبال سدھو تھے، نے عدالت کا کوئی سوال ایسا نہ تھا جس کاجواب نہ دیا ہو ۔
وکیل نے کہا کہ اس درخواست گزار خاتون نے ماں باپ کی وفات کے بعد اپنے بھائیوں کو باپ بن کر پالا حتی کہ زمینداری بھی خود کرتی تھیں ۔ 2008 میں ملزمان نے اپنے ڈیرے پر بلا کر دونوں بھائیوں کو قتل کیا، بہن کے علاوہ ایک گواہ بھی موجود تھا، کلاشنکوف کی گولیوں کے 52 خول برآمد ہوئے لیکن لیبارٹری معائنے کے لیے نہیں بھجوائے گئے ۔ پولیس نے مقدمہ درج کیا لیکن ایک بھی ملزم ڈیڑھ سال تک گرفتار نہیں کیا، ایس پی بااثر ملزمان کے گھر موجود ہوتا تھا تو پرائیویٹ کمپلینٹ دائر کی جس پر ٹرائل کورٹ نے آٹھ میں سے دو ملزمان کو بری کیا ۔
پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق وکیل نے بتایا کہ پانچ ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی لیکن ہائیکورٹ نے بری کر دیئے ۔ عدالت کے سوالات پر وکیل نے بتایا کہ جائے وقوعہ پر گاڑی نہیں جاسکتی تھی اس لیے مقتول زمین دیکھنے گاڑی تھوڑی دور پارک کرنے کے بعد پیدل گئے اور لاشیں بھی اس لئے ٹرالی پر لے جائی گئیں کیونکہ چار پائیوں پر ڈالی گئی لاشوں کو گاڑی میں لے کر جانا ممکن نہیں تھا ۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ جہاں گاڑی نہیں جاسکتی تھی وہاں ٹریکٹر ٹرالی کیسے چلی گئی، کیا ٹریکٹر ٹینک کی طرح چین والا تھا یا اس ٹینک جیسا ٹریکٹر تھا جو سمندر پار کر جاتا ہے ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ وقوعہ کے بعد خاندان اکٹھا ہو کر جھوٹے گواہ بناتا ہے، ان گواہان کی گواہی جھوٹی ثابت ہونے پر اصل ملزمان چھوٹ جاتے ہیں، پولیس بھی اصل ملزمان تک پہنچ جاتی ہے لیکن گواہان جھوٹے ہونے پر شک کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے ۔ جب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید دلائل سننے سے انکار کرتے ہوئے فیصلہ لکھوانا شروع کیا تو دکھیاری بہن آنسو بہاتی پچھلی قطار سے اٹھ کر وکیل کے پیچھے پہنچی تو فاضل جج نے وکیل کے معاون اور خاتون کو بیٹھنے کا حکم دیا حالانکہ معاون تو پوری سماعت کے دوران کھڑا رہا تھا ۔
پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق خاتون نے کہا کہ میں یتیموں کی وارث ہوں، میری بات سن لیں لیکن جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے بولنے کی اجازت نہیں دی تو ساتھ آنے والے نوجوان نے خاتون کو بٹھا دیا ۔ جب عدالت فیصلہ لکھوا چکی اور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تو آبدیدہ بہن کی آنکھوں کے آنسو سوکھ گئے اور عدالت سے باہر نکلتے ہوئے بولی ’قتل ہون ای کیوں جے ملک اچ انصاف ہووے‘ ۔
ملزمان الطاف، سلیم، اختر، شوزب اور سخی تو بری ہوگئے لیکن مرنے والے دونوں بھائیوں کی بہن کو انصاف کس نے دینا ہے ۔ آخر دو انسان کسی نے تو قتل کیے تھے ۔ کیس کا ٹائٹل نورحبیب بنام ریاست تھا اور ریاست نور حبیب کے مقتول بھائیوں کے قاتلوں کو عدالت سے سزا دلانے میں ناکام ہوگئی ۔