پاکستان

قاضی کے خلاف انصافی حکومت کا مقدمہ

ستمبر 23, 2019 2 min

قاضی کے خلاف انصافی حکومت کا مقدمہ

Reading Time: 2 minutes

رپورٹ : ج ع

پاکستان میں مس کنڈکٹ کے الزام میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے طبی بنیادوں پر مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کیلئے درخواست دائر کی ہے جبکہ جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کل 24 ستمبرکو مقدمہ سماعت کیلئے مقرر کر رکھا ہے۔

دس رکنی بنچ میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب ،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل ،جسٹس سجاد علی شاہ ،جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد شامل ہیں ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سا تھ ساتھ مختلف وکلاء تنظیموں نے بھی صدارتی ریفرنس کو آئینی درخواستوں کے ذریعے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ۔

سینئر وکیل ایڈووکیٹ منیر اے ملک کی میڈیکل گراﺅنڈ پر دائر کی گئی مقدمہ ملتوی کرنے کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’مجھے 18 ستمبر کو ہارٹ اٹیک ہوا، دو سٹنٹ ڈالے گئے، طبی ماہرین نے کم ازکم دو ہفتے کیلئے مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے۔‘

درخواست میں مزید کہا گیا چیف جسٹس نے چار اکتوبر تک عمومی التوا کی درخواست منظور کررکھی ہے اس لیے سپریم کورٹ مقدمے کی سماعت کے لیے نئی تاریخ کا تعین کرے ، دس رکنی بنچ کے ایک رکن جج 28 ستمبر تک ملک میں نہیں، مقدمے کی نئی تاریخ جج کی واپسی کے تناظر میں طے کی جائے۔

ادھر سپریم کورٹ کی جاری کردہ کاذ لسٹ کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ دستیابی کی صورت میں بنچ کا حصہ ہوں گے ۔ یہ کہا جا رہا ہے جسٹس منصور علی شاہ جنوبی افریقہ میں بین الااقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے ہیں۔

واضح رہے ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے خرابی صحت کے باعث 23 ستمبر سے 4 اکتوبر تک بارہ دنوں کے لیے عمومی التوا کی درخواست دائر کی تھی جسے چیف جسٹس نے منظور کیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی طرف سے لکھے گئے ایک خط کے ذریعے ایڈووکیٹ منیر اے ملک کی مقدمہ ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ خط میں یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ عمومی التوا کا اطلاق خصوصی بنچ یا لارجر بنچ پر نہیں ہوتا۔

مقدمے کی پہلی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ نے 18 ستمبر کو کی تھیَ

بعد ازاں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجا ز الااحسن نے اعتراض کے بعد خود کو بنچ سے الگ کر لیا تھا ۔اعتراض میں کہا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو منصب سے ہٹا نے کی صورت میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کو فائدہ حاصل ہوگا

دانتوں کے ماہر ڈاکٹر صد ر مملکت عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا تھا۔ ریفرنس میں مس کنڈکٹ کا الزام عائد کیا تھا ۔وکلاءتحریک کے بعد اس مقدمے کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے۔

وکلا تنظیمیں صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مشتمل اور عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ قرار دے رہی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے فیصلوں کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ فیض آباددھرنا کیس فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ ’آئین افواج پر ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت پر پابندی عائد کرتا ہے۔‘

فیصلے میں ہدایت کی گئی تھی کہ حکومت پاکستان وزارت دفاع کے ذریعے بری، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کو ہدایت دے کہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے