نواز شریف ضمانت کے بعد کہاں جائیں گے؟
Reading Time: 3 minutesپاکستان میں اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ بیک وقت سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا معطلی اور طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کی ہیں۔
جمعہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی خصوصی بینچ کے سامنے لاہور کے سروسز ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر سلیم پیش ہوئے اور نواز شریف کی طبی رپورٹ جمع کراتے ہوئے بتایا کہ سابق وزیراعظم کی حالت تشویش ناک ہے اور اس حوالے سے ایک رپورٹ آج لاہور ہائیکورٹ میں بھی پیش کی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعرات کو شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست پر نیب اور حکومت کے ساتھ ڈاکٹروں کو بھی نوٹس جاری کر کے طلب کیا تھا۔
ہائیکورٹ میں سروسز ہسپتال لاہور کے ایم ایس نے نواز شریف کی صحت کے بارے میں رپورٹ میں بتایا کہ سابق وزیراعظم کے پلیٹلیٹس بن رہے ہیں مگر وہ ختم بھی ہو رہے ہیں۔ ’نواز شریف کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں تاہم تاحال پلیٹلیٹس ختم ہونے کی وجہ معلوم نہیں کی جا سکی۔‘
انہوں نے خصوصی بینچ کو بتایا کہ نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی اس صورتحال سے آگاہ ہیں۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کی ایک میڈیکل ہسٹری ہے۔ ’ان کو دل کا عارضہ بھی لاحق ہے اور اسٹنٹ بھی پڑ چکے ہیں۔ نواز شریف جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان کا حق ہے کہ ملک میں یا ملک سے باہر اپنی مرضی کے ڈاکٹرز سے علاج کرائیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مریض کا بھی علاج کے حوالے سے مطمئن ہونا ضروری ہے۔
سروسز ہسپتال کے ایم ایس نے عدالت کو بتایا کہ پیر کو نواز شریف کے علاج کا پانچ روزہ سائیکل مکمل ہو رہا ہے جس کے بعد ہی وہ مکمل طبی رپورٹ اور رائے دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی صحت سے متعلق تفصیلی تجزیاتی میڈیکل رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کر دی۔
ادھر لاہور ہائیکورٹ میں چودھری شوگر ملز کیس میں نیب کے زیر حراست نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست کی سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ کے سربراہ علی اکبر نجفی نے پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل جمال سکھیرا سے پوچھا کہ حکومت پنجاب کا موقف نواز شریف کی صحت سے متعلق کیا ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ”یہ درست ہے کہ نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں تاہم حکومت ان کا علاج مکمل توجہ کے ساتھ کروا رہی ہے۔ بیماری کی تشخیص ہو چکی ہے اور بین الاقوامی معیار کی طبی سہولیات دی جا رہی ہیں۔“
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ علاج کے درست اور کارگر ہونے کا دو سے تین دن میں پتا چلے گا۔
عدالت کے سوالا پر نیب کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ان کا بھی وہی موقف ہے جو پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل نے بیان کیا ہے۔
عدالت نے نواز شریف کا علاج کرنے والی طبی ٹیم کے سربراہ کو طلب کیا جس پر ڈاکٹر محمود ایاز نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کیساتھ عدالت پہنچے اور بتایا کہ نواز شریف کو شوگر، یورک ایسڈ، دل، جگر کی بیماریاں ہیں۔
ڈاکٹر محمود ایاز کے مطابق میڈیکل بورڈ چھ ڈاکٹروں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تاحال مرض کی مکمل تشخیص نہیں کر سکے۔
وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ نواز شریف کی صحت تشویش ناک حد تک خراب ہے۔
عدالت نے نواز شریف کی تازہ ترین رپورٹس ساڑھے بارہ بجے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ میڈیکل بورڈ کے چیک اپ کے بعد نواز شریف کی تازہ ترین رپورٹس پیش کی جائیں۔ کیس کی مزید سماعت ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔