کالم

اور پھر سر باجوہ آ گئے

نومبر 30, 2019 3 min

اور پھر سر باجوہ آ گئے

Reading Time: 3 minutes

1947 سے لے کر 1958 تک پاکستان کی سیاست میں جوڑ توڑ، سازشیں، کھینچا تانی سب کچھ تھا مگر موروثیت نہ تھی۔ اس دور کی سیاسی قیادت سے ایک بڑی غلطی جو سرزد ہوئی وہ شدید احساس عدم تحفظ کی بناء پر فوج کے سربراہ کو کابینہ کا رکن بنانا تھا۔ ہماری بدقسمتی کہ فوج کا وہ سربراہ سیاستدانوں سے کہیں زیادہ مکار، گھٹیا اور کمینہ انسان نکلا جس نے آئین توڑ کر مارشل لاء لگا دیا۔

اس مارشل لاء نے ان تمام سیاستدانوں کی راہ میں ایبڈو کی دیوار کھڑی کر دی جن کی عوام میں جڑیں تھیں اور ان کی جگہ بنیادی جمہوریت کے مکروہ نظام کے ذریعے چن چن کر ان لوگوں کو عوام پر مسلط کیا جو صرف فوجی آمر کی خوشنودی کے محتاج تھے۔

پاکستانی سیاست میں موروثیت اس سیاہ دور کی نشانی ہے۔ گوہر ایوب خان وہ پہلا لعنتی کردار ہے جس نے اپنے باپ کی انتخابی مہم چلائی، کراچی میں مہاجروں اور پٹھانوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کی اور باپ کے بل بوتے پر فوج سے نکل کر انڈسٹریلسٹ بن بیٹھا۔

1971 کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کو ملی۔ بھٹو کے دور میں نصرت بھٹو، مرتضیٰ بھٹو یا بینظیر بھٹو کا سیاسی کردار کیا تھا؟ کچھ بھی نہیں، اور اگر ایک اور سیاہ رو آمر ایک بار پھر آئین شکنی کر کے ملک کو مارشل لاء کے اندھیروں میں نہ دھکیلتا تو شاید بینظیر بھی سیاست کی بجائے فلاحی کاموں کو ترجیح دیتیں۔ ہم پر بھٹو خاندان کی تین نسلوں کو بھٹو نے نہیں ضیاء نے مسلط کیا ہے۔

اسی ضیاء نے سیاسی جماعتوں کو تہس نہس کر کے غیر جماعتیں انتخابات کے ذریعے پاکستان میں طاقتور جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی وہ سیاسی نرسری تیار کی جس سے نکلنے والے کانٹے دار، زہریلے پودوں کی آج دوسری اور تیسری نسل اس ملک کی والی وارث بنی بیٹھی ہے۔

ضیاء کی ظلمت کے خاتمے کے بعد جو لولی لنگڑی جمہوریت ہمارے حصے میں آئی اس میں اگلے بارہ برس بھٹو کے وارثوں اور ضیاء کے وارثوں کو طاقتور اسٹیبلشمنٹ آپس میں لڑاتی رہی۔ جب دونوں اپنی اپنی لیگیسی سے چھٹکارا پانے کے قریب پہنچے تو ایک اور فوجی آمر نے ملک پر قبضہ کر لیا۔

مشرف نے ایوب اور ضیاء کے برعکس سیاسی جماعتوں کا وجود ختم نہیں کیا بلکہ انہیں توڑ مروڑ کر ایک کنگز پارٹی تخلیق کر ڈالی۔ عوام کی حقیقی نمائندہ دونوں سیاسی جماعتوں کو محروم رکھ کر اپنے چیلے بانٹوں کو آگے بڑھایا۔ گراس روٹ لیول پر جمہوریت لانے کے نام پر موقع پرستوں کی ایک اور کھیپ تیار کی اور اسے ہم پر مسلط کر کے خود باہر بھاگ گیا۔

پچھلے دس برسوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا، صوبوں کو ان کے جائز حقوق دیے، ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی سنجیدہ کوششیں کیں، توانائی کا مسئلہ حل کیا، ملک میں سیاسی استحکام کی فضا پیدا کی، پہلے پانچ سال میں ریوینیو میں ستر فیصد اور اگلے پانچ سال میں سو فیصد اضافہ کیا اور پھر جنرل باجوہ آ گئے۔

فوجی بوٹوں کے تسموں کو گلے کا ہار بنانے والے دانشور آج موروثی سیاست پر عوام کو بیوقوف ہونے کے طعنے دیتے پھرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اپنے اپنے حصے کے بیوقوف سب کو میسر ہیں مگر بدترین احمق وہ ہیں جو پاکستان کے وجود کو لاحق سب سے بڑے کینسر کو تو نعمت سمجھتے ہیں مگر نزلہ زکام کو مہلک ترین بیماری قرار دیتے ہیں۔

انفرادی سطح پر ہم جیسے بھی ہوں ہمارا اجتماعی شعور ہمیشہ سے مثالی رہا ہے- اس اجتماعی شعور نے بار بار ملک کے سب سے طاقتور ادارے کو پسپا کیا ہے، اس شعور نے بدترین پدرسری معاشرے میں ایک خاتون کو دو بار وزیراعظم بنایا ہے۔ اس شعور نے بدترین جبر سہتے ہوئے بھی اپنے حق انتخاب پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس شعور نے اس ملک کو کبھی مذہبی آمریت کے حوالے نہیں کیا۔ اس شعور نے خود پر مسلط کردہ فرقہ واریت اور دہشتگردی کے عفریت کو شکست دی ہے۔

ہر وہ شخص جو کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کھڑا ہے، اس کی خاطر مخالفین سے لڑتا جھگڑتا ہے، گالیاں دیتا اور گالیاں سہتا ہے، سڑکوں پر نکلتا ہے، مار کھاتا ہے، وہ میرے لئے قابل احترام ہے۔ اس کی جدوجہد، اس کی قربانیوں، اس کے جذبے کو سلام۔ بیوقوف صرف مجھ جیسے پیٹ بھرے دانشور ہیں جو اس عام آدمی کے خلوص کی توہین کر کے خود کو عقلمند سمجھتے ہیں۔

ذہنی غلام صرف بوٹ چاٹنے والے ہیں، سیاسی کارکن ذہنی غلام نہیں ہوتے۔ ہم سب کو اپنی اپنی جماعت اور اپنے اپنے لیڈر کی خامیوں کا ادراک ہے۔ حمایت اور مخالفت کا فیصلہ چند بڑے ایشوز پر ہر کوئی اپنی سوچ سمجھ کے مطابق کرتا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن سے یہ توقع رکھنا کہ ٹماٹر مہنگا ہونے پر وہ پی ٹی آئی چھوڑ دے گا یا ن لیگیے سے یہ امید رکھنا کہ میاں صاحب لندن گئے تو وہ مسلم لیگ نون کی حمایت ترک کر دے، بجائے خود بیوقوفی ہے۔ سیاستدان پیغمبر نہیں ہوتے اور ہم ان سے پیمبرانہ کردار کی توقع بھی نہیں رکھتے۔ وہ ہم جیسے انسان ہیں اور ہماری حمایت یا مخالفت کے محتاج ہیں۔

عوام کے ووٹ لے کر آنے والا کالا کتا بھی سر آنکھوں پر، بندوق کے زور پر مسلط ہونے والا فرشتہ بھی نامنظور۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے