کالم

وہ دن جب رپورٹنگ آسان نہ رہی

دسمبر 16, 2019 2 min

وہ دن جب رپورٹنگ آسان نہ رہی

Reading Time: 2 minutes

ماجد جرال ۔ صحافی

سانحہ آرمی پبلک اسکول میری صحافتی زندگی کی تلخ اور دردناک کوریج میں سے ایک ہے۔ نیوز ون ٹی وی کے لیے 2014 میں دفاعی امور کی وزارت کا رپورٹر تھا اور درحقیقت صرف آئی ایس پی آر ہی ہماری اصل توجہ کا مرکز رہتا تھا بلکہ رکھنا مجبوری بھی تھی۔

نامعلوم ماضی سے 16 دسمبر 2014 کی صبح تک تمام قومی و علاقائی اخبارات میں کوئی ایک خون آلود صفحہ سقوط ڈھاکہ کے کرب کو دردناک الفاظ اور بھیانک تصاویر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ماضی کی شکشت و شرمندگی کی مرجھاتی حقیقت پر یاد دہانی کا سالانہ چھڑکائو کر جاتا۔


ہمارے آقائوں کو تو شاید کوئی فرق نہ پڑے مگر 16 دسمبر دکھ اور کرب دینے کے اکلوتے واقعے کو ایک اور المناک سانحے کا ساتھ دے کر اس کی تنہائی کو دور کرگیا۔
اللہ تعالی اس واقعے میں شہید ہونے والے بچوں و اساتذہ سمیت دیگر کے اہل خانہ کو صبر دے۔
لوگ آج بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کی تحقیقات کیوں نہ ہوئی، اس پر جوڈیشل کمیشن کیوں نہ بنا اور اگر کوئی تحقیقات ہوئیں تو خاموش کیوں ہیں؟
صحافت میں ایک مدت تک تو کسی بات کو راز رکھا جاسکتا ہے مگر مستقل ایسا ممکن نہیں۔

اے پی ایس کے واقعے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب مجھے آج بھی نہیں مل سکا کہ کیا اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی یا کوئی اور وجہ تھی۔


16 دسمبر 2014 کی صبح آئی ٹین فور میں واقع گھر میں میں سو رہا تھا جب فون کی گھنٹی بجی، اٹھ کر دیکھا تو اس وقت کے آئی ایس پی آر کے بریگیڈئر عتیق کی کال تھی، انہوں نے مجھے کہا کہ پشاور آرمی پبلک اسکول کے حوالے سے جو ٹکر نیوز ون کی سکرین پر چل رہے ہیں وہ ہٹوا کر کوئٹہ میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بلوچ رجمنٹ کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں شرکت کی خبر ہائی لائٹ کرنے کا کراچی کہوں جس کے بعد کال بند ہوگئی۔


سچ میں مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہ آئی کی معاملہ کیا ہے، میں رپورٹر ہوں نا کہ ڈائریکٹر نیوز جو کسی اور کی خبر رکوانے یا چلوانے پر بااختیار ہوں۔

میں نے ٹی وی آن کیا تو پشاور سے عظمت گل آرمی پبلک اسکول میں دھماکوں کی آوازیں سنائی دیے جانے اور متعدد افراد کے جاں بحق ہونے کے امکان پر بیپر دے رہا تھا۔ میں نے اسی وقت ڈائریکٹر نیوز حافظ طارق صاحب کو کال کرکے بریگیڈئر عتیق صاحب کی کال اور ڈیمانڈ سے آگاہ کیا مگر جوابا مجھے کہہ گیا کہ تیاری رکھو کسی وقت بھی پشاور نکلنا پڑ سکتا ہیں تمہیں۔

وہاں جس دل کے ساتھ رپورٹنگ کی وہ حال تو بیان کرنا ممکن نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ اس واقعے پر جتنا پردہ ڈالا جاسکتا تھا وہ ڈال دیا گیا ہے۔کوئی ادارہ، کوئی کمانڈر اس سانحے میں برتی جانے والی غفلت کا ذمہ دار ہوکر بھی نہیں ہوگا، کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے