برطانیہ، یونین کے خاتمے کے دہانے پر
Reading Time: 4 minutesبراعظم یورپ سے بیس میل کی دوری پر شمالی بحراوقیانوس میں واقع جزیرہ برطانیہ میں قائم یونائیٹڈ کنگڈم اب اپنی یونین کے خاتمے کی جانب گامزن ہے۔ یہ شاید اس صدی کا اب تک کا سب سے بڑا ڈرامائی موڑ ہے. یاد رہے پورے خطہ ارضی کو برطانیہ اور اس میں انگلینڈ کی سربراہی میں قائم ویلز، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے اتحاد کو یونائٹڈ کنگڈم کہا جاتا ہے۔
انگلینڈ اور ویلز کے ساتھ اسکاٹ لینڈ کا اتحاد 1707 میں ہوا اور آئرلینڈ 1801 میں اس میں شامل ہوا. موجودہ یونین کی تشکیل قریباً سو برس قبل 1822 میں ہوئی تھی جب آئرلینڈ عیسائی فرقہ پرستی کی نذر ہو کر کیتھولک ریپبلک اور پروٹسٹنٹ شمالی آئرلینڈ میں تقسیم ہوگئے۔ شمالی آئرلینڈ پروٹسٹنٹ کے پیروکار ہونے کے سبب کنگڈم میں شامل رہا۔
یونائٹڈ کنگڈم کے اتحاد کو پہلا دھچکا 1960 کی دہائی میں لگا جب شمالی آئرلینڈ اور ریپبلک آئرلینڈ کے مابین اتحاد پیدا کرنے کی متمنی چند قوتوں نے ہتھیار اٹھا لئے۔ ان قوتوں کا بنیادی مقصد پورے آئرلینڈ کا انضمام تھا تاہم فرقہ ورانہ تفاوت کے سبب یہ تحریک مقامی عوامی پذیرائی نہ ملنے کے سبب خاصی بدنام ہوئی. تاج برطانیہ نے پہلی بار اپنی سرزمین پر اتنے بھیانک حالات کا مقابلہ کیا جب اسے خودکش حملوں سے لیکر ٹارگٹ کلنگ اور بم بلاسٹ جیسے مہلک اقدامات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اس تنازعہ کے سبب کم و بیش تین ہزار چھے سو افراد لقمہ اجل بنے. اس تنازعہ نے دنیا میں موجود دیگر متحارب گروپوں کو بھی خاطر خواہ متاثر کیا. متحدہ آئرلینڈ کے حامیوں نے اپنی تحریک دو حصوں میں چلائی. ایک حصہ عسکری کارروائی کیلئے آئرش ریپبلک آرمی کے نام سے متحرک تھا جبکہ دوسرا ونگ شین فین کے نام سے سیاسی مذاکرات کے حوالے سے قائم تھا۔
ڈیڈلاک یا عدم دلچسپی کی صورت میں عسکری ونگ متحرک ہوتا جو اپنی عسکری کارروائیوں سے دوسرے فریق کو مذاکرات پر مجبور کرتا تھا. یہ تنازعہ نوے کی دہائی کے آخر میں گڈ فرائیڈے معاہدے کی صورت میں اختتام پذیر ہوا. اس معاہدے کا بنیادی نکتہ طرفین میں بارڈرز کی نرمی تھا جس سے دونوں اطراف کے آئرش بآسانی آمدورفت رکھ سکتے تھے۔ اس طرح کنگڈم نے اپنی بقا کو برقرار رکھا۔ چونکہ دونوں ممالک 1973 سے یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بارڈرز میں نرمی اور کسٹمز، ٹیرف فری کی پالیسی سے موثر مدد ملی۔
تاہم اب یوں لگتا ہے کہ کنگڈم بریگزٹ کے مہلک حملے سے اپنی بقا برقرار نہیں رکھ پائے گا۔
2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد پارلیمنٹ پہ لازم ہوچکا ہے کہ کنگڈم کو یورپی یونین سے علیحدہ کیا جائے. اس سے معاشی، سیاسی اور سفارتی مسائل تو جنم لیں گے ہی لیکن سب سے بڑا مسلہ آئرش بارڈر کا ہے. پانچ سو کلومیٹر پر محیط اس بارڈر کے ایک جانب شمالی آئرلینڈ اور دوسری جانب ریپبلک آئرلینڈ ہے۔
یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد شمالی آئرلینڈ کو کنگڈم کا حصہ ہونے کے ناطے ریپبلک آئرلینڈ سے ایک اجنبی ملک جیسا سلوک ہی کرنا پڑے گا۔ بریگزٹ پر عملدرآمد کا مطلب بارڈرز پر چیک پوسٹس، فورسز کی تعیناتی, کسٹمز اور ٹیرف کا اطلاق اور آمدورفت میں مجوزہ شرائط کا نفاذ ہونا ہے۔ چنانچہ آئرلینڈ اسی حالت میں واپس لوٹنے کے خدشے سے دوچار ہوجائے گا جو ساٹھ کی دہائی میں تنازعہ کی وجہ بنا۔ کچھ بعید نہیں کہ پھر سے فسادات بھڑک اٹھیں۔ اس مسئلے کے حل کی تلاش میں یورپی یونین اور برطانوی یونین میں مذاکرات کے کئ دور ہوئے۔ آخری مرتبہ تھریسا مے اور یونین کے درمیان بیک ڈراپ فارمولے پر معاملات طے پائے تو تھے لیکن برطانوی پارلیمنٹ نے اسے رد کردیا جس کی بنا پر تھریسا مے کو مستعفی ہونا پڑا۔
بیک ڈراپ پالیسی میں یہ طے پایا تھا کہ آئرش بارڈر میں نرمی کو برقرار رکھا جائے گا تاوقتیکہ کسی مناسب معاہدے تک پہنچا جائے تاہم لیبر پارٹی اور خود کنزرویٹو پارٹی کے اراکان نے اس خدشے کے پیش نظر یہ معاہدہ رد کر دیا کہ اس طرح برطانوی معیشت یورپی یونین کی محتاج ہو کر رہ جائے گی۔ چنانچہ بورس جانسن کی نئی قیادت نے بریگزٹ کو بغیر کسی شرائط کے عملدرآمد کا عندیہ دیا جس نے مزید تحفظات کو جنم دیا۔ اب بارہ دسمبر کو منعقد ہونے والے نئے الیکشن نے کنزرویٹو پارٹی کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت دے کر بورس جانسن کے موقف کی تائید کردی ہے۔ کنگڈم کی عوام نے اکثریت تو دے دی لیکن اس سے یونین کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی بریگزٹ چاہتی ہے لیکن اسکاٹ لینڈ میں قوم پرست جماعت اسکاٹش نیشنلسٹ پارٹی نے الیکشن میں کلین سویپ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ یورپی یونین کو نہیں چھوڑنا چاہتے چاہے کنگڈم سے علیحدگی کیوں نہ اختیار کرنی پڑے۔ اس سے بڑھ کر حیرت انگیز تبدیلی یہ آئی کہ شمالی آئرلینڈ میں کنگڈم نواز پارٹی ڈی یو پی کو وہاں کی قوم پرست جماعتوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا اور یہ جماعتیں بھی یورپی یونین کی خاطر کنگڈم سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ گویا کہ بریگزٹ پر عملدرآمد کا مطلب اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی کنگڈم سے علیحدگی ہے. اب تک کی اطلاعات کے مطابق بورس جانسن ہر قیمت پر بریگزٹ پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔
اس پورے عمل نے کچھ انتہائی سنجیدہ قسم کے سوالات کو جنم دیا ہے جو کہ بحث مباحثے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں. پہلا سوال جمہوریت کی قابلیت پہ اٹھتا ہے کہ برطانیہ جیسے جمہوری ملک میں جمہوریت ہی کے سبب یونین ٹوٹنے جارہی ہے اور انچاس فیصد برطانوی عوام کی شدید خواہش کے باوجود جمہوریت یونین کو زوال پذیر ہونے سے نہیں روک پارہی. دوسرا سوال برطانوی پارلیمنٹ کی کارکردگی کا ہے. بقول اسپیکر دارالعوام بریگزٹ تاریخ کی سب سے بڑی بے وقوفی تھی کے تسلسل میں اس امر پر تعجب ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ نے بریگزٹ کے حوالے سے عوامی ریفرنڈم کی کلہاڑی خود اپنے پاؤں پر ماری اور پھر تین سال کی عرق ریزی کے باوجود کوئی خاطر خواہ راستہ اپنانے میں ناکام رہی. یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے برطانوی پارلیمنٹ عصر حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحییت سے محروم ہو چکی ہے۔ ان کی ناکامی کے سبب قوم پرست جماعتوں نے عوام میں واضح جگہ بنائی یہاں تک کہ علیحدگی کے ٹھوس مطالبے کی پوزیشن میں آگئیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ برطانیہ جو کہ جمہوریت کی مادر علمی ہے جہاں جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ جمہوری رویوں کا چلن تمدنی اعتبار سے کامل معلوم ہوتا ہے وہاں پاپولزم نے کیسے جگہ بنا لی۔ یہ علتیں تو نیم جمہوری اور کمزور جمہوری ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ کیا اس ڈویلپمنٹ کے بعد سیاسیات کے طالب علم کو برطانوی جمہوری نظام کو مقررہ معیار کے نتیجے سے گھٹا کر عمومیت میں لانا پڑے گا۔