کالم

امریکہ ایران کشیدگی، پاکستان کیلئے نعمت

جنوری 25, 2020 6 min

امریکہ ایران کشیدگی، پاکستان کیلئے نعمت

Reading Time: 6 minutes

ثناء اللہ ستر سال سے زائد عرصے پر محیط پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک کی جغرافیائی اہمیت خارجہ تعلقات کی سمت طے کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے۔  دوسرے الفاظ میں خارجہ امور کی گرتی ہوئی ساکھ کو ہمیشہ جغرافیائی عنصر نے ہی سہارا دیا ہے۔


جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان نظریاتی اور دفاعی اختلافات کی صورت گری واضح ہورہی تھی اور دونوں متحارب ممالک کے درمیان دنیا میں اپنی طاقت کے پھیلاؤ کیلئے دیگر ممالک کے ساتھ اتحادی صف بندیاں ہورہی تھیں. عمومی طور پر نو آزاد ریاستوں کا فطری جھکاؤ سوویت یونین کی طرف تھا کیونکہ یہ ریاستیں مغربی استعمار سے آزاد ہورہی تھیں. براعظم ایشیا اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہاں کی نوآزاد ریاستیں وسائل اور انتظامی ڈھانچے کے حوالے سے ترقی پذیر سانچے میں ڈھلتی نظر آتی تھیں. پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر دونوں طاقتوں کے لئے ناگزیر تھا. اس کا مغربی حصہ وسطی اور خلیجی خطے کو چھوتا تھا جبکہ مشرقی حصہ مشرقی ایشیا کی جانب اثر رکھتا تھا. تاہم پاکستان نے امریکی کیمپ میں شمولیت کا ایک مشکل فیصلہ کیا۔

امریکہ نے بھی گرمجوشی دکھائی اور کچھ ہی عرصہ میں پاکستان کو ایک طاقتور سیکیورٹی اسٹیٹ میں بدل کر سوویت یونین کے علاقائی مفادات میں پھیلاؤ کو زبردست طریقے سے روکا. اگرچہ اس سے پاکستانی عوام کو جمہوری اداروں کی کمزوری کی قربانی دینی پڑی لیکن خارجہ امور میں پاکستان ایک جانی پہچانی ریاست بن گئ.
جیسے ہی کیوبن میزائل بحران کے بعد امریکہ سوویت دشمنی میں ایک ٹھہراؤ اور بلوغت آئی, پاکستان کی جغرافیائی اہمیت غیر متعلقہ معلوم ہونے لگی. نتیجہ یہ نکلا کہ جب پاکستان ٹوٹنے لگا تو کوئی مدد کو نہ آیا. بھٹو حکومت نے خارجہ پالیسی کا رخ بدلنے کی بھرپور کوشش کی. ایک متوازن خارجہ پالیسی بنانے کے واسطے مسلم بلاک کا نعرہ لگایا, چین اور سوویت یونین سے تعلقات کو سنجیدگی کی سطح تک لائے لیکن خارجہ امور میں جان نہ پڑ سکی یہاں تک کہ قدرت نے ایک اور موقع دیا. سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت نے جمود توڑا. جغرافیائی قرب کی کنجی نے زنگ آلود خارجہ پالیسی کے تالے کو کھولا اور ایک بار پھر امریکہ کو اپنے در پر پایا. دہائی پر محیط اس رومانس نے پاکستان کو عالمی شہرت دی اور اس کا فائدہ ایٹمی پروگرام اور کشمیر کی حمایت کی شکل میں اٹھایا.
افغان جنگ کے بعد ہی سرد جنگ کا بھی خاتمہ ہوگیا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ نیو ورلڈ آرڈر میں اب پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بھی ناکارہ ہوگئ. پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے بدترین دور سے گزر رہا تھا. بھارت سے دشمنی عروج پر تھی. افغانستان میں طالبان حکومت اثرورسوخ سے نکل کر عرب جہادیوں کے ہاتھ جا رہی تھی. چین کے ساتھ رسمی تعلق رہ گیا تھا جبکہ امریکہ اور یورپ پاکستانی ملٹری آمر کو ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کرتے تھے. اور پھر نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا. دھمکی آمیز فون کال سے شروع ہونے والا تعلق انتہائی قریبی دوستی میں بدل گیا. جنگ میں ساتھ دینے کے سبب پاکستان ایک بار پھر مضبوط ہوا. نان نیٹو اتحادی اور فرنٹ لائن اسٹیٹ بنتے ہی امریکہ اور مغرب کی آنکھ کا تارہ بن گیا. تاہم یہ تعلق بھی دس سالہ میعاد تک محدود رہا. اسامہ بن لادن کی موت کے بعد امریکہ نے عدم اعتماد کے الزامات تراشتے ہوئے دوری اپنائی اور ساتھ ہی امداد تک بند کردی.
حالیہ دنوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی نے ایک بار پھر پاکستان کو دونوں ممالک کے لئے اہم بنا دیا ہے. امریکہ نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے براہ راست جی ایچ کیو سے رابطہ کیا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور حقیقی فیصلے وہیں سے طے کئے جاتے ہیں. اگرچہ پاکستان نے ابتدائی طور پر جنگ کا حصہ نہ بننے کا عہد کیا ہے لیکن جنگ کی صورت میں خود کو الگ رکھنا ناممکن ہوگا. ایران سے مہاجرین کی آمدکاری, سعودی دباؤ کے تحت فوجی اڈے دینے کا معاملہ یا پھر خفیہ تفتیشی مراکز کی سہولت کاری جیسے جزوی امور پر تو بہر حال ساتھ دینا ہی ہوگا. اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمران طبقہ متحرک ہوچکا ہے اور بیرون ممالک دوروں کا سلسلہ جای ہو چکا ہے.
امریکہ ایران جنگی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو بہر صورت اندرونی و بیرونی طور پر بے پناہ فوائد ملنے کی امید ہے. اندرونی طور پر تین پہلوؤں پر فوائد ملنا بالکل واضح ہے. پہلا فائدہ عمران خان صاحب کو ملے گا. امریکی حمایت کی صورت میں حکومت کو درپیش سیاسی و معاشی دباؤ میں یقینی کمی ہو سکے گی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو شٹ اپ کال دے کر خان صاحب کی مدت بآسانی مکمل ہو سکے گی. یہ ایسے ہی ہے جیسے ایوب خان، ضیاالحق اور مشرف کو امریکی دلچسپی اور علاقائی مجبوری کے تحت سند اقتدار سے نوازنا پڑا. جب تک امریکہ خطے میں رہا، ان کی کرسی مضبوط رہی. دوسرا بڑا فائدہ آرمی چیف کو ملنا ہے. بااثر شخصیت ہونے کے سبب انکی مدت میعاد کے خاتمے پر بھی کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا. ایک خیال کے مطابق چند ماہ قبل دورہ امریکہ کے بعد آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر اعتراض کرنے پر عدلیہ و پارلیمنٹ کا جھاگ کی طرح بیٹھ جانے کے پیچھے مقامی سیاسی سوجھ بوجھ کی بجائے علاقائی صورتحال کا عمل دخل زیادہ موثر دکھائی دیتا ہے۔

تیسرا فائدہ جو اندرونی امور پر ملنے کا امکان ہے وہ انسانی حقوق کی پامالی جیسے واقعات پر عالمی دباؤ میں کمی کا ہے. بڑھتی ہوئی تنقید کے برخلاف مسلط کردہ سنسر پالیسی, ماورائے قانون تفتیشی مراکز, احتجاجی تحاریک کو کچلنے اور گمشدگی کے واقعات جیسے افعال کو عالمی برادری میں نظرانداز کئے جانے کے بھرپور امکانات ہیں. جس طرح ضیاالحق کی سیاسی پابندیوں، شریعت کے نام پر جبر کو قبولیت حاصل ہوئی تھی ویسی ہی قبولیت کا دور آیا چاہتا ہے۔


خارجہ امور میں بھی تین پہلوؤں پر زور دے کر اپنے مفادات کو تحفظ دیا جاسکتا ہے. پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف، افغان امن عمل اور کشمیر جیسے معاملات سے براہ راست متاثر ہورہا ہے. ڈیووس میں امریکی صدر سے ملاقات کے بعد ایف اے ٹی ایف سے نکلنے کے امکانات تو روشن ہو چکے ہیں. افغان امن عمل کا ڈیڈ لاک بھی ٹوٹنے کے اشارے دئیے جارہے ہیں لیکن کشمیر کے معاملے پر انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے. یہ ایک بہترین موقع ہے جموں کشمیر کی کم از کم خودمختار حیثییت کی بحالی کا. ایران امریکہ کشیدگی نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے اہم ہے بلکہ روس اور چین کے علاقائی مفادات کا بھی مرکز ہے. چین اور روس نہیں چاہیں گے کہ امریکہ افغانستان سے نکل کر ایران یا پاکستان میں بیٹھ جائے. اس سے نہ صرف دفاعی اور سیاسی بلکہ معاشی معاملات بھی عدم توازن کا شکار ہو سکتے ہیں. چنانچہ روس اور چین بھی یہ چاہیں گے کہ پاکستان اس ضمن میں ایک ایسا موثر کردار ادا کرے کہ امریکہ کو قدم جمانے کا موقع نہ مل سکے. ایسے میں پاکستان چین اور بالخصوص روس سے بھی کشمیر کارڈ کھیل سکتا ہے. یہ ایک ایسی دلچسپ صورتحال بن سکتی ہے کہ امریکہ, چین اور روس کم از کم کشمیر کے نکتے پر پاکستان کو اپنے تئیں منانے کے لئے بھرپور مدد کرنے کی یقین دہانی کریں. بھارت کیلئے ناممکن ہوگا کہ وہ ایسے دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ سکے. آمدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاک بھارت ملاقات کا تعین انہی کوششوں کی کڑی ہے۔


ان تمام روشن اور خوش آئند حالات میں ایک ایسا شبہ بھی ہے جو کہ خوف پیدا کرتا ہے اور وہ ہے موجودہ حکومت کی قابلیت و اہلیت کا. کیا موجودہ حکومت کے پاس ایسے اذہان ہیں جو سیاسی و سفارتی سوجھ بوجھ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ان امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں. یہ ایک دلچسپ مگر عجیب اتفاق ہے کہ جب کبھی بھی پاکستان کو ایسے بہترین مواقع میسر آئے, تب فوجی آمروں کا راج چل رہا ہوتا تھا. سوویت یونین کے خلاف ایوب خان تھا, تو سوویت افغان جنگ کے وقت ضیاالحق. مشرف کو نائن الیون کی نعمت میسر آگئ اور موجودہ حکومت جو جو ببانگ دہل فوجی حمایت کا تاثر دیتی ہے, کے وقت میں ایران کا معاملہ سامنے آگیا. یہ موقع پاکستان کیلئے بیک وقت سفارتی, سیاسی اور معاشی فوائد لایا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ فائدہ کیسے اٹھایا جائے. اس کمی کا احساس خود امریکہ کو بھی ہے اسی لئے اس نے براہ راست جی ایچ کیو سے بات کی. اب تک کے حالات و واقعات سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان خارجہ امور میں ناکام ہوگا. ڈیووس میں امریکی صدر کو ثالثی کی پیشکش کر کے پاکستان نے سارے انڈے امریکہ کی ٹوکری میں رکھ دئیے. یہ عمل یقیناً چین اور روس کو ناگوار گزرا ہوگا. بھارت اس سے قبل بھی امریکی ثالثی کو بارہا مسترد کرچکا ہے لیکن اگر فرض کیا جائے کہ بھارت مان جاتا ہے تو کیا پاکستان امریکی ثالثی کی شرائط پر پورا اتر پائے گا. کسی موقع پر آزاد کشمیر سے فوجیں واپس بلوانے کا خطرہ مول لے گا. یہ ایک ایسی فاش غلطی ہے جس نے پاکستان کو اس نادر موقع کو گنوانے میں مہلک کردار ادا کیا ہے۔ طالبان کے معاملے پر پاکستان دنیا بھر سے اچھی خاصی بدنامی تو مول ہی چکا ہے اس لیے امن مذاکرات امریکہ سے زیادہ پاکستان کی مجبوری ہیں لیکن جموں کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو مودی پر لعن طعن اور ٹرمپ جیسے ناقابل اعتبار شخص پر بھروسی کرنے کی بجائے حقیقت پسندی سے سفارتی حل کی جانب جانا چاہیے۔ یہ تو طے ہے کہ اس علاقائی کشیدگی اور جنگی صورتحال کے فوائد تو حکمران طبقے اور پنڈی والوں تک ہی محدود رہیں گے اور عوام کو مہاجرین اور فرقہ واریت کے تحائف ملیں گے لیکن اگر خارجہ امور پر توجہ دی جائے تو کم از کم ایک بین الاقوامی ساکھ بچائی جا سکتی ہے۔ عوام اس پر ہی خوشیاں منا کر زخم بھول جائیں گے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے