ملک ریاض کی اربوں روپے کی ادائیگی کے لیے مہلت کی درخواستیں مسترد
Reading Time: 5 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کی 460 ارب روپے کی ادائیگی کے لیے مزید تین سال کی مہلت دینے کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
بدھ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کی جانب سے دائر کی گئی دو مختلف درخواستوں کی سماعت کی جن میں دو مہنگے وکیل سابق اٹارنی جنرل سلمان بٹ اور سابق نگران وزیر قانون علی ظفر پیش ہوئے۔
وکیل سلمان بٹ نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کو کراچی منصوبے کی اربوں رقم کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہیں۔ کورونا کی وبا کے باعث پوری دنیا میں معیشتوں کو نقصان پہنچا اور پاکستان میں بھی حکومت نے بینکوں کو قرض دہندگان سے رقم واپس لینے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کہا ہے۔
وکیل نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی دس نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے بڑے ملکوں سے پسماندہ ملکوں کے قرضوں کی ادائیگی مؤخر کرنے کے لیے کہا۔ آئی ایم ایف اور پیرس کلب میں شامل ملکوں نے بھی قرضوں کی اقساط کی ری شیڈولنگ کی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اکنامک سروے میں بھی معیشت کو درپیش مشکلات اور معاشی نمو گرنے کا ذکر ہے۔ یہ وبا کے عالمی اثرات ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے ساتھی جج جسٹس منیب اختر سے کچھ دیر مشاورت کی اور وکیل کو بات رکھنے کے لیے کہا۔ وکیل سلمان بٹ نے دنیا بھر اور پاکستانی معیشت کا خراب ہوتا خاکہ دوبارہ پیش کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ "آج ہی پاکستان میں حکومت نے کہا ہے کہ معیشت درست سمت میں ٹریک پر آگے بڑھ رہی ہے۔ آپ جو پڑھ رہے ہیں یہ سنہ 2019 کی اکنامک سروے رپورٹ ہے۔”
وکیل نے بتایا کہ اس رپورٹ کا موجودہ معاشی صورتحال سے تعلق ہے اور یہ کہ بحریہ ٹاؤن نے 53 ہزار لوگوں کو ملازمت دے رکھی ہے، اور ملک میں روزگار کے مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی وبا کے یہ اثرات پڑے ہیں۔ رپورٹ کہہ رہی ہے کہ 27 ملین لوگ بے روزگار ہوں گے۔ متحدہ عرب امارات سے 13 لاکھ اور سعودی عرب سے 15 لاکھ لوگ پاکستانیوں کے روزگار ختم ہونے اور واپس ملک آنے کا خدشہ ہے جبکہ ملک کے اندر 50 سے 60 ہزار افراد کی ملازمتیں کورونا کے باعث مشکل میں ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ان کو معلوم ہے کہ دنیا بھر میں یہ ہو رہا ہے مگر عدالت کو بتایا جائے کہ بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کیا ہوا؟۔
وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ جو بحریہ ٹاؤن پر گزری وہ بھی وبا کے عالمی اثرات ہیں۔ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ "آپ پر کیا گزری؟ اپنے کاروبار پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کریں۔”
وکیل نے جواب دیا کہ جتنا کما رہے ہیں اس سے زیادہ کے اخراجات ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کی درخواستوں میں عمومی نوعیت کی باتیں کی گئی ہیں۔ یہ سنہ 2019 تک کی رپورٹ ہے اور کوئی نئی و ٹھوس چیز شامل نہیں کی گئی۔
بینچ کے سربراہ نے وکیل سے کہا کہ عدالت کو ہارڈ کور ڈیٹا دیں، بحریہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے، آڈٹ بھی کراتے ہوں گے، اس حوالے سے بتائیں کہ کیا صورتحال درپیش ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اب تو وبا کو بھی ایک سال ہو گیا ہے، پوری دنیا کا بتا رہے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کا بھی بتائیں۔ جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے وبا کے بعد تعمیراتی شعبے کو کئی رعایتیں بھی دی ہیں۔
وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کو رعایت نہیں دی گئی۔
اس دوران بحریہ ٹاؤن کے دوسرے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ان کے پاس کچھ اعداد وشمار بھی جو عدالت جاننے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ بحریہ کراچی کے پراجیکٹ کو بنانے کے لیے بھی رقم چاہیے جبکہ بجلی، پانی کی فراہمی کے مد میں بھی اخراجات ہوں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ "یہ آپ کا کاروبا ہے، خرچے تو ہوں گے۔”
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ کراچی میں تو یہ پراجیکٹ مکمل طور پر فروخت ہو چکا ہے، اگر دوسرے منصوبوں سے رقم نہیں آ رہی تو وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں تمام پلاٹس فروخت کر کے رقم وصول کر چکے ہیں۔
وکیل سلمان بٹ نے اس کے جواب میں کہا کہ بہت بڑی طاقت نے بحریہ ٹاؤن کو اس صورتحال سے دوچار کیا، اور یہ اختیار سے باہر ہے۔ تین سال کے لیے ادائیگی مؤخر کر دیں تو حالات بہتر ہو جائیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ "آپ کے قبضے میں ایک بڑا اثاثہ ہے، اس کو فروخت کر رہے ہیں اور عدالت کو لکھ کر دے چکے ہیں کہ یہ رقم ادا کریں گے۔ کل کو آپ کہیں گے کہ ادائیگی کے لیے مزید چھ سال کی مہلت دے دیں۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا بحریہ ٹاؤن نے ڈیفالٹ کیا ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ بحریہ ٹاؤن نے کبھی کسی سے قرض لیا اور نہ لیتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس مقدمے میں فیصلے پر نظرثانی ہو چکی ہے اور اب صرف عمل درآمد ہو رہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بحریہ کو اس ادائیگی کے لیے سات برس کی مہلت دی ہے۔
وکیل نے کہا کہ وبا کے اثرات پوری دنیا میں ہیں اور ایمریٹس نے 9 ہزار نوکریاں ختم کی ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس پر آپس میں مشاورت کریں گے جو عالمی اثرات کی آپ نے بات کی اور اپنی درخواستوں میں تفصیل بتائی ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے جس طرح ادائیگی کی رقم 650 سے 660 ارب روپے کی دی تھی اور ادائیگی کی مدت پانچ سے بڑھا کر سات برس کر دی تھی تو اب بھی اگر اس درخواست کو اسی طرح دیکھ لیا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل کی غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ 460 ارب روپے کی تھی، ہاں اگر آپ 660 ارب دینا چاہتے ہیں تو ہم اپنے حکم نامے میں ترمیم کر سکتے ہیں۔ اس بات پر عدالت میں موجود سب لوگ ہنس پڑے اور وکیل علی ظفر نے غلطی کی معذرت کی۔
وکیل نے کہا کہ ادائیگی کی اقساط پوری کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کو ہر ماہ تین ارب 50 کروڑ روپے کی ضرورت پڑتی ہے۔ عدالت اگر اپنے ماضی کے فیصلوں کو سامنے رکھنے تو ادائیگی کے لیے دی گئی مہلت بڑھا سکتی ہے۔
وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ بحریہ کو یہ پراجیکٹ مکمل کرنے کا موقع دیا جائے کیونکہ حکومت بھی کنسٹرکشن انڈسٹری کو بحال کرنا چاہتی ہے تاکہ لوگوں کو روزگار ملے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ "آپ کا مطلب ہے کہ بحریہ ٹاؤن اتنا بڑا پراجیکٹ ہے کہ اس کی ناکامی کے اثرات ہوں گے۔”
اس موقع پر عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو بلایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ "رقم کی ادائیگی بحریہ ٹاؤن اور عدالت کے درمیان معاملہ ہے کیونکہ فیصلہ سپریم کورٹ کا ہے۔ میری درخواست فقط اتنی ہے کہ بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم کے سندھ میں استعمال کے لیے جو عدالتی کمیشن بنایا گیا ہے اس میں سے میرا نام نکال لیا جائے اور کسی دوسرے رکن کو شامل کیا جائے۔”
عدالت نے کہا کہ اس حوالے سے حکم میں ترمیم کر دی جائے گی اور اٹارنی جنرل کو اختیار ہوگا کہ وہ کمیشن کے لیے اپنا نمائندہ نامزد کر سکے۔
اس دوران وکیل علی ظفر دوبارہ اپنی نشست سے اٹھے اور عدالت سے استدعا کی کہ اس ادائیگی کی مہلت بڑھانے کے معاملے میں سندھ حکومت کی رائے بھی لے لی جائے کیونکہ بحریہ ٹاؤن نے زمین سندھ حکومت سے خریدی تھی اور اب عدالتی حکم کے تحت ملنے والی رقم بھی سندھ میں ہی استعمال کی جائے گی۔
بینچ نے سماعت مکمل کرتے ہوئے دونوں درخواستیں مسترد کرنے کا مختصر حکم سنایا اور کہا کہ اس کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
خیال رہے کہ تین سال قبل پاکستان کی سپریم کورٹ نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے کراچی، مری اور راولپنڈی کے پراجیکٹس کو خلاف قانون قرار دے کر ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھا تاہم بعد ازاں جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں بینچ نے عمل درآمد کرتے ہوئے بنیادی فیصلے کو تبدیل کرکے بحریہ ٹاؤن کو کراچی منصوبے کی زمین کے لیے 460 ارب روپے ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔
آزادانہ مارکیٹ سروے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے۔
سپریم کورٹ کے راولپنڈی لوئی بھیر جنگل کی زمین پر بحریہ ٹاؤن کے قبضے اور مری کے جنگلات کی کٹائی کر کے سوسائٹی بنانے کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔