چار ججز وزیراعظم کے جواب سے مطمئن، ’ایک معزز جج اور وزیراعظم ایک مقدمے میں فریق‘
Reading Time: 3 minutesوزیراعظم کی جانب سے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی خبر پر لیے گئے نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ جج صاحب (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) اور وزیر اعظم (عمران خان) ایک مقدمے میں فریق ہیں۔
رپورٹ: جہانزیب عباسی
سپریم کورٹ میں وزیراعظم ترقیاتی فنڈز کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے کی۔سماعت کے آغاز پراٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پر اعتراض کر دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیا وزیر اعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟طوزیر اعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے، وزیر اعظم اس وقت جوابدہ ہے جب معاملہ ان سے متعلق ہو، اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ کرنے دیا کریں،عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکرٹری سے مانگا گیا تھا، حکومت سیکریٹریز کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جو اعتراض آج کر رہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کی دستخط شدہ سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی۔
سیکرٹری خزانہ کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ میں موقف اختیار کیا گیا کہ وزارت خزانہ نے ترقیاتی فنڈز کی مد میں اراکین پارلیمنٹ کو فنڈز نہیں دیے،عوامی فنڈز نہ اراکین پارلیمنٹ کو دیے اور نہ ہی ایسا ارادہ ہے، اخبار میں شائع خبر کی تردید کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے جب ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے پوچھا آپ کا کیا جواب ہے تو اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میں نے کچھ پوچھنا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی بات جاری کرتے ہوئے کہا مجھے کل نامعلوم نمبر سے ایک واٹس ایپ پیغام وصول ہوا، اس وٹس ایپ پیغام میں سیکرٹری پی ڈبلیو ڈی کی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا، پتہ نہیں یہ دستاویزات درست ہیں یا نہیں؟ وٹس ایپ پیغام میں کہا گیا این اے 65 حکومتی اتحادی حلقے میں ایک خطیر رقم خرچ کی گئی، یہ رقم ایک سڑک تعمیر کرنے کیلئے دی گئی ہے، کیا یہ عوامی فنڈز کا استعمال نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا جس حلقے میں ترقیاتی فنڈز دیے گئے وہ حکمران جماعت کے انتہائی اہم اتحادی ہیں،ہم آپ کے دشمن نہیں ہیں،ہم تو صرف آئین پر عمل چاہتے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ کرپشن نہ ہو،ہم آئین کے محافظ ہیں، ایک فوج کی صورت میں میرے خلاف ٹوئٹر پر ٹویٹس کی گئیں،سپریم کورٹ ماضی میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو بھی طلب کر چکی ہے،ہم نے ابھی وزیراعظم کو طلب کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا،اٹارنی جنرل صاحب آپ نے کل کہا تھا وزیراعظم کے پاس اخباری خبروں کی تردید کرنے کا وقت نہیں ہے، وزیراعظم جب کل لفافے تقسیم کر رہے تھے تو اس وقت وہ مصروف نہیں تھے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا واٹس ایپ والی دستاویزات آپ کی شکایت ہے، جائزہ لیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے شاید میری بات ہی نہیں سنی۔
اٹارنی جنرل نے کہا آپ کافی دیر سے آبزرویشن دے رہے ہیں، بات تو میری نہیں سنی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‘ہم وزیراعظم آفس کو کنٹرول نہیں کر سکتے، ایک معزز جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) اور وزیراعظم (عمران خان) ایک مقدمہ میں فریق ہیں۔’
واضح رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ صدارتی ریفرنس کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کھلی عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس کو خارج کر چکی ہے جبکہ نظر ثانی مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو این اے 65 میں ترقیاتی فنڈز کی مد میں خطیر رقم استعمال ہونے سے متعلق نامعلوم ذرائع سے وصول شدہ وٹس ایپ پیغام پر مشتمل دستاویزات چاروں جج صاحبان کو فراہم کر دی گئیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر دستاویزات حقیقی ہیں تو پھر یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ہم وٹس ایپ کے زریعے وصول دستاویزات کا جائزہ نہیں لیں گے، سیکرٹری خزانہ کے جواب سے مطمئن ہیں۔
اس کے بعد جج صاحبان اچانک کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے۔