قانون، ادب اور عدل
Reading Time: 5 minutesاحساس/ اے وحید مراد
یہ کالم اختلافی نوٹ سے شروع ہوتا ہے۔
مشہور زمانہ قانونی مفکر’چولے دی گاچے‘ نے برسوں قبل کہا تھا
’ہر بڑے اختلافی نوٹ کے پیچھے قانون کے علم سے زیادہ ناولوں اور ڈراموں کامطالعہ ہوتا ہے‘۔ (اس مفکرکا نام گوگل نہ کیا جائے)
پہلے کہا جاتا تھا کہ جج نہیں فیصلے بولتے ہیں، پھر کہا گیا کہ ججوں کو نہیں ان کے فیصلوں کو بولنا چاہیے۔ اب ہم اس میں مزید کچھ اضافہ کرنا چاہیں گے، وہ یہ کہ
’ججوں کے فیصلوں میں قانون بھی نظر آنا چاہیے‘۔
اگر کسی ایک ناول سے متاثر ہوکر فیصلے لکھے جانے لگے تو پھر ججوں کو فرانز کافکا کی وہ کہانی بھی پڑھنا ہوگی جو بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں لکھی گئی۔ ’دی ٹرائل‘ نامی یہ ناول زیرحراست ایک شخص کے بارے میں ہے جس کو سزا سنائے جانے کے بعد اپنے جرم کی تلاش کرنا پڑی۔
ججوں کا ادب اور آرٹ کا دلدادہ ہونا ان کے ذوق کے بارے میں ایک خوش کن تاثر قائم کرتاہے لیکن عدالتی فیصلوں میں آرٹ اور ادب کا در آنا کیا قانون اور دلیل کی جنگ کو خوبصورت بنا سکتا ہے اس پر بحث ہونا چاہیے۔ اگر جج شیکسپیئر کے ڈرامے کے پیراگراف اور مکالمے فیصلوں میں لکھیں گے تو کیا ہم اس بات کیلئے تیار رہیں کل عدالت میں وکیل قانون کے مطابق دلیل دینے سے قبل فیودور دوستووسکی کے ناول ’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘ کا ایک باب پڑھے گا۔
شیکسپیئر نے مرچنٹ آف وینس (وینس کے تاجر) کی کہانی کیوں لکھی تھی، نہیں معلوم۔ مگر جج نے اس میں سے ایک مکالمہ لیا ہے۔ کردار بسانیو جج ڈیوک سے کہتا ہے کہ ’ہرجرمانہ ادا کرنے کو تیارہوں، مگر ایک بار اپنے اختیار کو قانون سے بالاتر ہو کر استعمال کرلیں اور ایک بڑی اچھائی کیلئے ایک چھوٹی برائی کرلیں‘۔ ا س کے بعد تبصرے میں جج خود کو ’جج‘ کرکے کہتا ہے کہ ’خوش قسمتی سے میں نے ایک بڑی اچھائی کیلئے کوئی چھوٹی برائی بھی نہیں کی اور قانون کے مطابق وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ دیا‘۔
کیا کوئی شخص خود اپنے فیصلے کا جج بن سکتا ہے؟۔ جب خود کے درست اور قانون کے مطابق ہونے کا طے کیا جا چکا تو پھر صدیوں پرانے شیکسپیئر کے کردار کو یاد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ جج کا فیصلہ بولتا ہے اور اس میں قانون اپنا راستہ بناتا ہے۔ فیصلے میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ قانون کے مطابق ہے۔ فیصلہ خود کہتا ہے کہ قانون کی لکیر کے ایک طرف اگر بزدلی کی کھائی ہے تو دوسری جانب لاقانونیت کا جنگل ہے، خواہ یہ جنگل کسی جج کا اختیار سے تجاوز کے گھنے و سایہ دار درختوں والا ہی کیوں نہ ہو۔
کیا ہم اس اختلافی نوٹ کو یہاں ختم کردیں؟۔ مگر قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے ذکر کے بغیر بات ادھوری ہوگی۔ جج نے لکھا ہے کہ قانون کے مطابق فیصلے میں چیئرمین کے خلاف کسی کارروائی کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اس کا غصہ پھر ادب کا سہارا لے کر نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اختلافی نوٹ اس کیلئے کرسٹوفرمارلو کی کہانی (ڈرامے) ڈاکٹر فاسٹس کا حوالہ دیتا ہے۔ کہانی کے مطابق ڈاکٹر فاسٹس نے دنیاوی فائدے کیلئے اپنی روح شیطان کے حوالے کردی تھی۔ جج کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں احتساب بیورو کے چیئرمین نے ڈاکٹر فاسٹس کی طرح کردار ادا کیا۔
ہم یہ نہیں لکھیں گے کہ خلیل جبران نے کس قوم پر افسوس کیا تھا۔ ہم اس جانب بھی رخ نہیں کریں گے کہ افسوس اس قوم پر جس کے منصف فیصلوں میں قانون کے حوالوں سے صرف نظر کریں اور ناولوں کے ڈائیلاگ تحریر کریں۔
نوٹ کا اختلاف ختم ہوا۔ اب فیصلے کو فریقوں کی نگاہ سے دیکھا جائے، وہ فریق جن میں سے ایک نے عدالت کے کمرے میں ہی تالیاں پیٹنا شروع کردی تھیں اور دوسرے نے عدل کے ایوان سے باہر نکلتے ہی اپنے حاکم کے محاسن کی تسبیح اونچی آواز میں پڑھی۔ یہ فریق فیصلے پر کیا کہہ رہے تھے، آئیے ادب کی راہ پر چلتے ہیں۔
’یہ ایک بہترین فیصلہ ہے۔ یہ ایک بدترین حکم نامہ ہے۔ یہ قانون کی بنیاد پر کھڑی عمارت ہے۔ یہ قانون سے انحراف کی مثال ہے۔ یہ اندھیری رات میں روشنی کی کرن ہے۔ یہ جمہوریت کی روشن صبح کو قتل کرنے کی کوشش ہے‘۔ ہم عظیم فرنگی مصنف چارلس ڈکن کی ’اے ٹیل آف ٹو سٹیز‘ ( دوشہروں کی کہانی) جیسا تبصرہ کرنے کی صرف کوشش کرسکتے ہیں، ہمارے پاس نہ وہ علم ہے اور نہ اس جیسا قلم۔ اس لیے ہم مٹھائی کھانے اور نعرے لگا کر خوش ہونے والے ان فریقوں کی بات کن الفاظ میں کریں، جن کو جب تک فیصلہ سمجھ آتا وہ منوں گلاب جامن لٹاچکے تھے۔ فیصلہ تو بعد میں بھی شاید ہی کسی نے پڑھا ہو۔ اور ویسے بھی جہاں دربار میں عالی جاہ ہوں اور ان کو صرف خوش کرنے والی خبریں اور ہنسانے والے لطیفے سننا پسند ہوں قانون کی زبان میں بات کون اورکیوں سمجھائے۔
اور کیا یہ فیصلہ ہے؟۔ ایسے عدالتی حکم نامے کو فیصلہ کیسے کہا جائے جس کے بطن سے تفتیش جنم لے گی۔ جس تفتیش کے نتائج ایک بار پھر سپریم کورٹ کے خصوصی بنچ کے سامنے رکھے جائیں گے اور وزیراعظم نوازشریف اور اس کے بیٹوں کے بارے میں رائے قائم کی جائے گی۔ یہ رائے صرف وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ عدالت کا حکم نامہ یہی بتاتا ہے۔ حکم نامہ ان تین ججوں نے لکھا ہے جن کا کہنا ہے کہ قانون وزیراعظم کی براہ راست نااہلی کی اجازت نہیں دیتا۔ جسٹس اعجازافضل کے علاوہ کوئی ایسا جج نہیں جس نے قانون کی بات کرنے کے علاوہ مقدمے میں اپنی رائے نہ دی ہو۔ صرف جسٹس اعجازافضل کہتے ہیں کہ قانون جتنی اجازت دیتاہے اتنی ہی بات کی جائے، وہ کہتے ہیں کہ نااہلی کا فیصلہ قانون کے مطابق ثبوتوں کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ دو ججوں نے تو وزیراعظم کو براہ راست نااہل قراردیا ہے اور اس کیلئے وہ قانون کی اپنی تشریح کرتے ہیں جو اس سے قبل نہیں کی گئی تھی۔ تاہم عدلیہ کے ادارے کیلئے خوش کن بات یہ ہے کہ مہم جوئی کی یہ سوچ اقلیت میں ہے۔ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن نے لندن فلیٹوں کی ملکیت کی کہانی پر اہمیت کے حامل درجنوں سوال اٹھائے اور درست نشاندہی کی ہے کہ عدالت کے سامنے جواب نہیں آئے اس لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تفتیش ان کے جواب تلاش کرے۔ عدالتی حکم نامے کا آخری حصہ بھی نہایت اہم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تفتیش کی رپورٹ جب سپریم کورٹ کے خصوصی بنچ کے سامنے آئے گی تو اس کی روشنی میں وزیراعظم کو عدالت بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔
قانون کی زبان میں اگر سادہ اور آسان نتیجہ اخذ کیا جائے تو یہ وزیراعظم نوازشریف کیلئے تباہ کن فیصلہ ہے۔ مگر سیاست کے کوچے میں ان کو اس سے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں کیونکہ ووٹ عدالتی فیصلوں پر نہیں کمپنی کی مشہوری پر ملتے ہیں۔ اور ان کی کمپنی (ن لیگ) ملک میں اچھا خاصا نام رکھتی ہے، پنجاب کی حد تک تو ان کا کوئی مقابل دور تک نظر نہیں آتا، شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نااہل نہ ہونے کو ہی کامیابی سمجھا خواہ عدالتی حکم نامہ باقی امور میں کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو۔
رہے درخواست گزار، تو شریف خاندان کے کروڑوں والے وکیلوں کے مقابلے میں ان کا ایک سادہ سی عرضی پر کوئی خرچ اٹھا اور نہ پارٹی کے مفت وکیل سے ان کو نقصان پہنچا۔ ججوں نے عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق کو سیاست کرنے اور اپنے مخالف کو زچ کیے رکھنے کیلئے بہت مواد فراہم کر دیا ہے۔ اگر کسی کو سیاست ہی نہ کرنا آئے تو قصور اس کا اپنا ہے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو غیر ضروری سمجھنے والوں کو اگر معلوم ہوجائے کہ تفتیشی رپورٹ کے نتیجے میں ان کے اصل ہدف (نوازشریف) کو مجرم بھی ثابت کیا جا سکتا ہے تو وہ دو ججوں کے نوازشریف کو دیانتدار قرار نہ دینے کے فیصلے کو بھول کر تین ججوں کے حکم نامے کو چومنا شروع کر دیں۔
موجودہ حالات میں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جو قانون کے مطابق لکھا گیا ہے مگر اس کے بعد عدالت ایسے ہی الزامات والی ان درخواستوں کا کیا کرے گی جو اس کے پاس عرصے سے زیرالتواء ہیں۔ اور آنے والے دنوں میں اس عدالتی حکم نامے کو قانونی مثال بناتے ہوئے مزید درخواستیں بھی ججوں کے سامنے ہوں گی۔ کیا یہ فیصلہ عدالت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا؟۔ کیا ہرنئے درخواست گزار کو ایسا ہی حکم نامہ تھمایا جائے گا، یا ایسا صرف ان کیلئے ہوگا جو مخالفین کے خلاف سڑکوں پر ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کرسکتے ہیں؟۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تھا کہ ’میں نے عدل کے ایوانوں میں خوف کے سائے دیکھے ہیں‘۔