کالم

نظریہ زندہ رہتا ہے

جولائی 12, 2021 3 min

نظریہ زندہ رہتا ہے

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی تاریخ میں عوام نے اکثر اس لیڈر کا ساتھ دیا جس نے مقتدر حلقوں کی خوشنودی کی بجائے پسے ہوئے طبقے کی بات کی تاہم بعض اوقات لیڈر عوام کی پذیرائی کو پس پشت ڈال کرطویل جدوجہد سے بچتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آنے کو فوقیت دیتے ہیں جس وجہ سے ایسے لیڈر یا سیاسی جماعتیں عوام میں مقبولیت کھو دیتی ہیں۔ تاریخ میں کسی بھی مقصد کے لیے ہونے والی جدوجہد نظریاتی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ سیاسی بات چیت کرنا، ایک قدم آگے یا پیچھے ہٹانے میں کوئی مسئلہ نہیں تاہم اپنے نظریے پر قائم رہنا ہی اصل بات ہوتی ہے جسے تاریخ یاد رکھتی ہے۔

پاکستان 70 برس سے زائد عرصہ سے اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں رہا ہے جنہوں نے فاطمہ جناح سے لے کر آج تک ان طاقتور حلقوں کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف سازشیں کیں اور عوامی مقبولیت کے باوجود ان کو اقتدار حاصل نہیں کرنے دیا، منتخب حکومتوں کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا۔

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن ہے جو مقبول ترین ہونے کے باوجود مستقل طورپر ایک نظریے پر قائم نظر نہیں آتی، ن لیگی قیادت ایک ہی وقت میں اسٹیبلشمنٹ کا پلو بھی نہیں چھوڑنا چاہتی اور عوام کو بھی نظریاتی شیر بن کر دکھانا چاہتی ہے تاکہ ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو سکے۔ اسی طریقے کو اپناتے ہوئے میاں شہباز شریف مصلحت کی سیاست جبکہ میاں نواز شریف اور مریم نواز مزاحمت کی سیاست کرتے نظر آتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ دو تین ماہ مزاحمت کا بیانیہ چلانے کے بعدخاموشی اختیار کر لی جاتی ہے اور مفاہمت کا راگ الاپا جاتا ہے۔ ن لیگ اسٹیبلشمنٹ اور عوام کو الگ الگ تسلیاں دے کر اپنے ساتھ رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے تاہم مسلم لیگ ن کی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی طور پر مستحکم ہونے اور تاریخ میں یاد رہنے والے لوگ اور جماعتیں اپنے نظریے پر قائم رہتی ہیں تاریخ ایسے "بونوں” کو کبھی یاد نہیں رکھتی جو عوام کو تو ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے پیچھے لگاتے ہیں، سنہرے خواب دکھاتےاور ان کی جانوں کو داو پر لگاتے ہیں جبکہ مقتدر حلقوں کی طرف سے موقع ملنے پر نہ خود ووٹ چوری ہونے کی فکر کرتے، نہ آزادی اظہار پر پابندی کے مسئلے پر توجہ دیتے، اور نہ ہی مشکلات میں دھنسے عوام کی چیخیں سنتے ہیں. فقط بڑے گھر سے ملنے والی امید پر نظریے کو بیچ چوراہے چھوڑ دیتے ہیں ۔

پاکستان پیپلز پارٹی جب تک نظریے پر رہی عوا م میں مقبول رہی جیسے ہی اقتدارکی پارٹی بنی اپنی اہمیت کھو بیٹھی . اسی طرح ماضی قریب کی مثال لیں تو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت جب تک نظریے کی بات کرتی رہی مقبول رہی جب اقتدار کی چمک نے ان سے نظریہ چھین لیا تو پذیرائی گئی . پی ٹی آئی جب بیساکھیوں کی مدد سے صوبوں اور وفاق میں حکومت میں آئی تو ان کو اپنی مرضی سے کام کرنے میں دشواری پیش آئی جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کیے گئے تمام غلط کاموں کا وزن بھی پی ٹی آئی کی حکومت پر ڈالا جا رہا ہے ۔ یہ مسلم لیگ ن کے لیے بڑی مثال ہے کہ عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر اگر اقتدار حاصل کربھی لیا تو کیا فائدہ ہوگا۔ مسلم لیگ ن کو یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی وجہ سے جو پزیرائی عوام میں حاصل ہورہی ہے وہ مفاہمتی سیاست کی وجہ سے ضائع ہو سکتی ہے.

پاکستان بھر میں کامیاب جلسے کرنے کے بعد مریم نواز آزادکشمیر میں بھی بھرپور جلسے کر رہی ہیں جس کی واحد وجہ پنجاب کے لیڈران کا ووٹ کو عزت دینے کا نظریہ ہے نہ کہ مفاہمتی بیانیہ، کیوں کہ سیاسی جماعتیں اور شخصیات تو ایک دن اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تاہم ان کے نظریات ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور یہ نظریہ ہی ان لوگوں کے نام کو بھی زندہ رکھتا ہے .

اگر مسلم لیگ ن دو کشتیوں میں سواری کے بجائے نظریے کی بنیاد پر چلتی ہے تو عوام اور تاریخ دونوں میں زندہ رہے گی اور پاکستانیوں کی نجات دہندہ کے طورپر یاد رکھی جائے گی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے