اباجی، آرمی چیف اور شیخ رشید
Reading Time: 3 minutesہمارے والد مرحوم بہت سخت گیر تھے، وہ کسی بھی لمحے فی البدیہہ غصہ فرما سکتے تھے۔ بچپن میں جب ہم گھر میں داخل ہوتے تو پہلے سے گھر میں موجود بھائی کو اشارے سے باہر بلا کر پتہ کرتے کہ اباجی کا موڈ کیسا ہے ؟ اور پھر اس موڈ کے تقاضوں کے مطابق گھر میں انٹری دیتے۔ اگر ان کا موڈ اچھا ہوتا تو ہم چہکتے ہوئے داخل ہوتے اور اگر گرج چمک کی خبر ملتی تو ہم داخل ہونے سے پہلے سارے جہاں کی مسکینی سمیٹ کر اپنی شکل پر سجا لیتے۔ اسی حوالے سے ہمارے اور ہدایت اللہ سدوخانی کے بیچ ایک شرارت بھی شروع ہوگئی تھی جو گاہے بگاہے چلتی رہتی۔ ہم کرتے یہ کہ اگر ابا حضور سخت غصے میں ہوتے تو داخل ہونے والے کو غلط انٹیلی جنس اطلاع دے کر بتاتے "بہت خوشگوار موڈ ہے” اس گمراہ کن اطلاع پر جب داخل ہونے والا چہکتے ہوئے گھر میں داخل ہوتا اور سامنے سے گرم ہواؤں کے تھپیڑے استقبال کرتے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے۔ اسی طرح بسا اوقات ابا حضور خوشگوار موڈ میں ہوتے اور ہم ایک بار پھر برعکس صورتحال کی انٹیلی جنس شیئرنگ کردیتے اور جب داخل ہونے والا خوشگوار ماحول میں مسکین سی شکل لے کر انٹری دیتا تو یہ ایک مستقل تماشا ہوتا۔
کچھ دیر قبل جیو نیوز نے شیخ رشید کو لائن پر لے کر تازہ صورتحال کے حوالے سے رائے مانگی تو ایک سوال کے جواب میں فرمانے لگے "آرمی چیف بہت غصے میں ہے” یہ سنتے ہی ہمارا ذہن سیدھا اپنے بچپن میں پہنچ گیا اور ایک خفیف سا تبسم ہمارے لبوں پر آ کر گزر گیا۔ سیاستدانوں کا یہی تو مسئلہ رہا ہے کہ وہ انتخابی سیاست میں آنے کے بعد اپنی ولدیت بدل لیتے ہیں۔ کوئی جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہنا شروع کر دیتا ہے، کوئی جنرل ضیاء کو اباجی مان لیتا ہے، کوئی جنرل مشرف کی وردی استری کرنا "باپ کا حق” سمجھ لیتا ہے اور کوئی جنرل پاشا کے بوٹ پالش کرنا تقاضائے فرزندی قرار دے لیتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جس آرمی چیف نے تختہ نہیں بھی الٹا وہ بھی باپ بن کر سیاستدانوں سے پیش آیا۔ کوئی شک نہیں کہ سیاستدان اقتدار میں آنے کے لئے انہیں باپ بنا لیتے ہیں لیکن اختیار ملتے ہی ان سے پوچھتے ہیں "وردی کب اتارو گے ؟” یہ بھٹو نے بھی کیا، محمد خان جونیجو نے بھی کیا اور آصف علی زرداری نے بھی کیا۔ چونکہ نواز شریف نے کبھی بطور وزیر اعظم کسی ڈکٹیٹر سے چارج نہیں لیا اس لئے اسے مذکورہ سوال کا موقع تو نہ مل سکا لیکن اس نے ایک اور اہم کام کیا۔ اس نے ہر آرمی چیف کی سیاست میں مداخلت کو چیلنج کیا۔ اس میں کامیاب بھی ہوا اور قیمت بھی چکائی۔ لوگ اسے نواز شریف کا عیب بتاتے ہیں جبکہ فی الحقیقت یہ اس کا کریڈٹ ہے کہ جو شیخ رشید جیسوں کے ہر تین سال بعد نئے باپ بنتے ہیں انہیں نواز شریف ان کی حدود میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ آرمی چیف کے آگے دم نہیں ہلاتا بلکہ واحد سیاستدان ہے جس نے فوج کی مداخلت کی کھل کر مزاحمت کی۔ شیخ رشید کو کوئی جا کر بتائے کہ اگر ان کے نئے تین سالہ اباجی غصے میں ہیں تو ہم کیا کریں ؟ اپنے اباجی کو ٹھنڈا پانی پلائیں، شاور دلوائیں اور گالف کورس لے جا کر تازہ ہوا کھلوائیں لیکن ان کو بتا دیں کہ نواز شریف نے جنرل ضیاء کے بعد نئے باپ بنانے بند کردیئے ہیں اور جنرل ضیاء والی غلطی کا ازالہ اس نے جس طرح کیا ہے اس کی داستان شیخ رشید کے اس ہر اباجی کے چہرے پر لکھی ہے جس نے اس کے ماتحت کام کیا ہے۔ نواز شریف پر تو سب سے بڑا الزام ہی یہ ہے کہ وہ شیخ رشید کے ہر باپ سے لڑا ہے ۔