فاک ۔۔ یو
Reading Time: 5 minutesاحساس/ اے وحید مراد
اٹھارہ برس بیت گئے اس واقعے کو جس میں مشہور امریکی ریپ سنگر کو مصروف شاہراہ پر گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا۔ قاتلوں کے بارے میں تو آج تک امریکی پولیس معلوم نہ کرسکی مگراب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس پٹرولنگ سارجنٹ نے جو سب سے پہلے جائے وقوعہ پر پہنچا تھا ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ صرف 25 برس کی عمر میں اپنے گیتوں سے دھوم مچا دینے والے گلوکار کے آخری الفاظ کیا تھے۔
یہ بات ہمیں پتہ چلی ان امریکی اخبارات کی معرفت جنہوں نے 22 مئی کے روز لاس ویگاس کے سابق پولیس افسر کرس کیرول کا انٹرویو شائع کیا۔ نیویارک ڈیلی نیوز کی ر پورٹر ساشا گولڈسٹین سے بات کرتے ہوئے سابق پولیس افسر نے ہمیں بتایا ہے کہ اپنے گیتوں میں گالیوں کا بھرپور استعمال کرنے والا ’ٹوپاک شکور‘ آخری سانس تک امریکی نظام اور اس کے کل پرزوں کے بارے میں وہی خیالات رکھتا تھا جس کا اظہار اس نے پوری زندگی چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور گاتے بجاتے کیا۔
اپنے گیتوں سے مشہور اور جھگڑوں کے لیے بدنام ٹوپاک شکور جس ’ٹھگ لائف‘ گروپ کا حصہ تھے اس کے مخصوص الفاظ نے اس وقت بھی اس کے ہونٹوں کو چوما جب وہ گولیوں سے چھلنی تھا اور پولیس افسر اس پر جھک پر باربار پوچھ رہا تھا کہ تمہیں کس نے مارا؟۔ اپنے قاتل کا نام بتاﺅ۔
نیویارک شہرمیں سولہ جون 1971 کو ٹوپاک شکور نے اس عورت کے یہاں جنم لیا جو صرف ایک ماہ قبل جیل سے رہا ہو کر آئی تھی، اس پر ایک سو پچاس الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں امریکی حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ بھی تھا۔ ٹوپاک کی ماں سمیت اس کا پورا خاندان بلیک پینتھر نامی اس پارٹی کا رکن تھا جو ابتدا میں کالی رنگت والوں کے حقوق کیلئے قائم کی گئی مگر بدنامی اٹھانے کے بعد اس جماعت کو سوشلسٹ انقلاب کیلئے استعمال میں لانے کی کوشش ہوئی۔
ٹوپاک نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی امریکی نظام، سرکار اور اس کے اداروں سے نفرت شاید اس کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی۔ ڈئیر ماما ( پیاری ماں) جیسے گیت گانے والے نے اسی وجہ سے ’می اگینسٹ دی ورلڈ‘ ( میں دنیا کے خلاف) جیسے نغمے لکھے جس نے پرجوش نوجوانوں کو اس کے میوزک اور باغیانہ شاعری کا دیوانہ بنادیا۔ اور پھر وہ امریکی سماج میں ایک ایسا نام بن گیا کہ جس سے لوگ محبت بھری نفرت کرنے لگے۔ ٹوپاک شکور کا ہر گیت امریکی نظام اور معاشرے میں چھپے دوغلے پن کو ننگا کرنے لگا، اس نے صرف کالوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو موضوع نہیں بنایا بلکہ عدالتوں سے لے کر میڈیا تک میں موجود استعمار کی ذہنیت کو اپنے گیتوں کے ذریعے گالیاں دیں۔
جس طرح آج کل ہمارا سماج منافقت اور دوغلے پن کا شکار ہے جس میں ہر شخص عام گفتگو سے لے کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں، اور جلسے جلوسوں سے لے کر ٹی وی ٹاک شو میں ہونے والی بحث تک میں اردو کا چار حرفی لفظ بہت زیادہ استعمال کرتا ہے، ہر شخص دوسرے پر لام سے شروع ہو کر ’ت‘ پر ختم ہونے والا لفظ کسی بھی وقت پھینکنے کیلئے تیار ہوتا ہے مگر اسی لفظ کو اگر کوئی اپنے کسی گیت میں باربار دہرائے گا تو اس کے خلاف بات کرنا ثواب قرار پائے گا، اسی طرح کی منافقانہ سوچ کا شکار امریکی معاشرہ بھی تھا۔ جب ٹوپاک نے اپنے گانوں میں انگریزی کے چار حرفی لفظ (ایف، یو، سی، کے) کا استعمال شروع کیا تھا تو اس پر سخت ردعمل سامنے آیا۔
ٹوپاک شکور نے کسی تنقید کی پروا نہیں کی، شاید وہ جانتا تھا کہ بہت مختصر وقت میں اس کو بہت کچھ لکھنا اور گانا ہے۔ اسی لیے اس نے ’آل آئیز آن می‘ (سب کی نظریں مجھ پر) جیسا نغمہ گایا اور یہ میوزک البم بھی سپر ہٹ رہا۔ ٹوپاک شکور کے کیسٹ ستر لاکھ لوگوں نے خریدے۔ ٹوپاک نے اپنے گانوں میں صرف اپنی موت کی پیش گوئی ہی نہیں کی تھی بلکہ ہر وہ بات کی جو اس نے سوچی۔ ’اف آئی ڈائی ینگ‘ (اگرمیں جوانی میں مرا) اس کا ایک خوبصورت گیت ہے تو ’ورڈز آف وزڈم‘ (دانائی کے الفاظ) والے گانے میں بھی اس نے امریکا کو نہیں بخشا۔ وہ گاتا ہے کہ ’یہ ہمیں ایک ایک کرکے قتل کر رہے ہیں، ایک یا دوسرے طریقے سے، یہ امریکا کے مسائل کو ایک ایک کرکے اسی طرح ختم کریں گے‘۔
ٹوپاک شکور کون اور کیا تھا؟۔ وہ کیا چاہتا تھا، اس پر ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق بولتا رہے گا مگر اس کے اپنے الفاظ میں ’مجھے صرف میرا خدا سمجھ سکتا ہے ( اونلی گاڈ کین جج می)۔ شاید یہ گیت اس کی مختصر سی زندگی کا مکمل فلسفہ ہے۔
وہ امریکی نظام قانون کے نفاذ کے لیے سرگرم اداروں سے کھلے عام نفرت کرتا تھا، کیا یہی وجہ ہے کہ امریکی پولیس آج تک ٹوپاک کے قاتلوں کو گرفتار کرکے سزا نہ دے سکی؟۔ اس بارے میں کوئی رائے حتمی طور پر قائم نہیں کی جاسکتی مگر امریکا کے گناہوں کے شہر (سن سٹی) قرار دیے جانے والے لاس ویگاس کے ہفت روزہ اخبار ’ویگاس سیون‘ کے مطابق سات ستمبر ِکو گولیوں سے چھلنی ٹوپاک کو جب ایمبولینس میں ڈالا جا رہا تھا تو وہ ہوش کی دنیا سے رخصت لے رہا تھا۔
ٹوپاک ہسپتال کے بستر پر چھ دن پڑا رہا جہاں ڈاکٹروں نے اس کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، مشین کے سہارے دھڑکتے دل میں زندہ رہنے کی کوئی آرزو نہ ابھری تو اس کی ماں نے ہسپتال کے عملے کو جانے والے کی مشکل آسان کرنے کیلئے کہہ دیا۔ اس طرح ٹوپاک شکور کے آخری الفاظ وہی قرار پائے جو وہ ایمبولینس میں منتقل کیے جانے سے قبل ادا کرچکا تھا اور جو اس پولیس والے کے پاس امانت تھے جو سب سے پہلے اس کرائم سین پر پہنچا تھا۔
کرس کیرول نے انٹرویو میں کہا ہے کہ اس نے ٹوپاک کے آخری الفاظ کے بارے میں کسی کو اس لیے نہیں بتایاکہ کیس ابھی حل نہیں ہوا، دوسری وجہ یہ تھی کہ آخری الفاظ بارے پتہ چلتا تو ’لیو فاسٹ، ڈائی ینگ‘ والے ’لے جنڈ ‘ ریپر کو مزید شہرت حاصل ہوتی، وہ کہتا ہے کہ’ میں نہیں چاہتا تھا کہ ٹوپاک کو شہید کے طور پر یاد کیاجائے یا وہ ہیرو قرار پائے‘۔ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ کہیں کہ جب وہ مر رہا تھا، اس کی سانس اکھڑ رہی تھی، اس کی نبض ڈوبنے کو تھی تب بھی وہ پولیس والوں سے بات کرنا پسند نہیں کر رہا تھا، میں اسی وجہ سے اس کو ہیرو بنانا نہیں چاہتا تھا، مگر اب بہت وقت گزر گیا ہے اور وہ بہرحال شہید ہے، لوگ اسے ہیرو قرار دے چکے ہیں، اس موقع پر میرا خاموش رہنا کہانی میں کوئی فرق نہیں ڈال سکتا۔
سات ستمبر 1996 کے اس حادثے کو یاد کرتے ہوئے سابق پولیس افسر کرس کیرول نے کہا کہ میرے بار بار پوچھنے پر ٹوپاک نے مجھ پر نظر ڈالی، ایک سانس لی تاکہ الفاظ باہر آ سکیں اور پھر منہ کھولا۔ پولیس افسر کہتے ہیں کہ اس نے سوچا بل آخر اسے کچھ تعاون حاصل ہو رہا ہے اور وہ اب حملہ آور کا نام سن سکے گا مگر جب اس نے سنا تو ٹوپاک شکور کہہ رہا تھا وہی چار حرفی لفظ جو اس نے پوری زندگی پولیس اور امریکی نظام کیلئے استعمال کیا تھا، فاک ۔۔ یو۔
(ایک سوال۔۔ ہمارے معاشرے کے وہ کردار جو ہر دوسرے شخص پر لعنت بھیجتے اور ہر پہلے جملے میں گالی کا استعمال کرتے ہیں کیا اپنے آخری الفاظ بھی اسی بہادری سے موت کے فرشتے کو دیکھ کر ادا کریں گے)
یہ کالم پچیس مئی دوہزار چودہ کو شائع ہوا